ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
میں بھی نازاں ہوں ترا عاشق شیدا ہو کر
میں نہ سمجھا تھا کہ اشکوں سے اٹھے گا طوفاں
چند قطروں نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر
چشم بیمار جو پہلے تھی وہی اب بھی ہے
کچھ بنائے نہ بنی تم سے مسیحا ہو کر
کس کے رخسار دم سیر چمن یاد آئے
پھول آنکھوں میں کھٹکنے لگے کانٹا ہو کر
درد تھا دل میں تو جینے کا مزہ ملتا تھا
اب تو بیمار سے بدتر ہوں میں اچھا ہو کر
دام سے چھوٹ کے بھی میری اسیری نہ گئی
زلف صیاد گلے پڑ گئی پھندا ہو کر
چھپ کے رہنا ہے جو سب سے تو یہ مشکل کیا ہے
تم مرے دل میں رہو دل کی تمنا ہو کر
کیا ستم ہے شب وعدہ وہ حنا ملتے ہیں
رنگ لائے نہ کہیں خون تمنا ہو کر
دہن یار کی تعریف جو کی میں نے جلیلؔ
اڑ گیا طائر مضموں مرا عنقا ہو کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |