ناصحا کر نہ اسے سی کے پشیماں مجھ کو
ناصحا کر نہ اسے سی کے پشیماں مجھ کو
کتنے ہی چاک ابھی کرنے ہیں گریباں مجھ کو
وحشت دل کوئی شہروں میں سما سکتی ہے
کاش لے جائے جنوں سوئے بیاباں مجھ کو
اہل مسجد نے جو کافر مجھے سمجھا تو کیا
ساکن دیر تو جانے ہیں مسلماں مجھ کو
میں سر مو نہیں جوں زلف کسی سے شاکی
بادہ دستی نے کیا میری پریشاں مجھ کو
سچ کہو کس سے ہے یہ نین کھلانے کا شوق
بھیجتے ہو جو پئے سرمہ صفاہاں مجھ کو
یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو
مفت تک تو کوئی قائمؔ نہیں لینے کا یہ جنس
کہہ فلک سے کرے کچھ اور بھی ارزاں مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |