ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو

ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
by مرزا محمد رفیع سودا

ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
دل یار سے پھٹے تو کسی سے رفو نہ ہو

اس دل کو دے کے لوں دو جہاں یہ کبھو نہ ہو
سودا تو ہووے تب یہ کہ جب اس میں تو نہ ہو

آئینۂ وجود عدم میں اگر ترا
وہ درمیاں نہ ہو تو کہیں ہم کو رو نہ ہو

جھگڑا تو حسن و عشق کا چکتا ہے پل کے بیچ
گر محکمے میں قاضی کے تو روبرو نہ ہو

قطرہ کی کھل گئی ہے گرہ ورنہ اے نسیم
شور دماغ مرغ چمن گل کی بو نہ ہو

گزرے سو گزرے اہل زمیں اوپر اے فلک
آئندہ یاں تلک تو کوئی خوب رو نہ ہو

دل لے کے تجھ سے برق کے شعلے کو دیجیے
پر ہے یہ ڈر کہ اس کی بھی ایسی ہی خو نہ ہو

گل کی نہ تخم مرغ چمن کر سکے تلاش
ہم خام فطرتوں سے تری جستجو نہ ہو

سوداؔ بدل کے قافیہ تو اس غزل کو کہہ
اے بے ادب تو درد سے بس دوبدو نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse