نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا
by شاہ مبارک آبرو

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا
پنجرے میں بولتا ہے گرم آج اگن ہمارا

پیری کمان کی جوں مانع نہیں اکڑ کوں
ہے ضعف بیچ دونا اب بانکپن ہمارا

چلتا ہے جیو جس پر جاتے ہیں اس کے پیچھے
سودے میں عشق کے ہے اب یہ چلن ہمارا

ملنے کی حکمتیں سب آتی ہیں ہم کو اک اک
گو بوعلی ہو لونڈا کھاتا ہے فن ہمارا

مجلس میں عاشقوں کی اور ہی بہار ہو جا
آوے جبھی رنگیلا گل پیرہن ہمارا

اس وقت جان پیارے ہم پاوتے ہیں جی سا
لگتا ہے جب بدن سے تیرے بدن ہمارا

یہ مسکراؤنا ہے تو کس طرح جیوں گا
تم کو تو یہ ہنسی ہے پر ہے مرن ہمارا

عزت ہے جوہری کی جو قیمتی ہو گوہر
ہے آبروؔ ہمن کوں جگ میں سخن ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse