نالہ رکتا ہے تو سر گرم جفا ہوتا ہے
نالہ رکتا ہے تو سر گرم جفا ہوتا ہے
درد تھمتا ہے تو بے درد خفا ہوتا ہے
پھر نظر جھینپتی ہے آنکھ جھکی جاتی ہے
دیکھیے دیکھیے پھر تیر خطا ہوتا ہے
عشق میں حسرت دل کا تو نکلنا کیسا
دم نکلنے میں بھی کم بخت مزا ہوتا ہے
حال دل ان سے نہ کہتا تھا ہمیں چوک گئے
اب کوئی بات بنائیں بھی تو کیا ہوتا ہے
آہ میں کچھ بھی اثر ہو تو شرر بار کہوں
ورنہ شعلہ بھی حقیقت میں ہوا ہوتا ہے
ہجر میں نالہ و فریاد سے باز آ رسواؔ
ایسی باتوں سے وہ بے درد خفا ہوتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |