نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں

نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں
by جوشش عظیم آبادی

نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں
پر اثر کچھ اس کو ہوتا ہی نہیں

کتنا وہ قاتل ہے بے خوف و خطر
تیغ خوں آلودہ دھوتا ہی نہیں

اس گلی میں جس طرح روتا ہوں میں
اس طرح تو کوئی روتا ہی نہیں

خار زار عشق کو کیا ہو گیا
پاؤں میں کانٹے چبھوتا ہی نہیں

ترک کی لذت سے واقف کون ہیں
گر نہ ہوتا جان کھوتا ہی نہیں

جانتا گر دل ہے مزرع یاس کا
تخم امید اس میں بوتا ہی نہیں

جوں سخن آتا ہے سلک نظم میں
یوں کوئی موتی پروتا ہی نہیں

خواب میں ؔجوشش وہ آئے کس طرح
عاشق بے تاب سوتا ہی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse