نخل امید میں ثمر آیا
نخل امید میں ثمر آیا
حسن ان کا مراد پر آیا
قصد کعبہ تھا دیر میں پہونچا
کس طرف دھیان تھا کدھر آیا
رویا میں یاد یار میں جب جب
سیل اشکوں کا تا کمر آیا
واسطہ گو دیا پیمبر کا
نہ مرا پھر کے نامہ بر آیا
کر دیا کشتہ چرخ نے لیکن
نہ بغل میں وہ سیم بر آیا
خوب دیکھا مگر سوا تیرے
نہ کوئی دوسرا نظر آیا
جان دی ہم نے درد فرقت سے
نہ خبر کو وہ بے خبر آیا
صبح کی ہم نے تارے گن گن کر
پر وہ مہ رو نہ رات بھر آیا
کٹ گئی باتوں ہی میں وصل کی رات
مدعا دل کا کچھ نہ بر آیا
جب دیا اس نے بھر کے غیر کو جام
خون آنکھوں میں میری بھر آیا
ہو گئی شرم مانع وصلت
رحم بھی ان کو مجھ پہ گر آیا
نظر چرخ سے گرا خورشید
مہوش اپنا جو بام پر آیا
اپنے دل میں یہ سوچ لو وہبیؔ
جان جائے گی دل اگر آیا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |