نذر وطن
by اختر شیرانی
299352نذر وطناختر شیرانی

نذر وطن پھر اے دل دیوانہ چاہئے
پھر ہر قدم پہ سجدۂ شکرانہ چاہئے

پھر سر زمیں وطن کی ہے نظروں کے سامنے
پھر لب پہ ایک نعرۂ مستانہ چاہئے

بچپن کی یاد لیتی ہے پھر دل میں چٹکیاں
پھر بے خودی بہ حجت طفلانہ چاہئے

برسوں کے بعد آئے ہیں باغ وطن میں ہم
پھر ہر کلی کو سجدۂ مستانہ چاہئے

کہسار سبز پوش نظر آئے دور سے
پھر لب پہ چار بیت کا افسانہ چاہئے

جس کوچے میں ہوئیں کبھی رسوائیاں نصیب
اس کا طواف با دل دیوانہ چاہئے

بخشا تھا جس نے پہلے پہل دل کو درد عشق
پھر اس کے در پہ سجدۂ شکرانہ چاہئے

پھر دل کو ہو یقیں نہ کسی کے وصال کا
پھر واقعہ بہ صورت افسانہ چاہئے

پھر شوق سے ملیں گے کسی گلعذار سے
پھر لب پہ شور بلبل مستانہ چاہئے

جھولا جھلائیں‌ گے کسی مست شباب کو
رقصاں فضا میں پھر مئے‌ و مے خانہ چاہئے

پائے طلب کو وادئ پرویں ہے نیم گام
پھر آرزو کو منزل جانانہ چاہئے

پھر خرمن سکوں کو ہیں درکار بجلیاں
پھر بے حجاب جلوۂ جانانہ چاہئے

پھر ذوق مے کشی کو ہے معراج کی طلب
کوثر کا بادہ چاند کا پیمانہ چاہئے

پھر شوق بن کے دل میں دھڑکتی ہے زندگی
پھر جنبش تبسم جانانہ چاہئے

پھر سینۂ امید میں رقصاں ہے برق طور
پھر پرسش مذاق کلیمانہ چاہئے

بالائے کوہ سایۂ ابر بہار میں
پروین و ماہتاب کا کاشانہ چاہئے

پھر اس حریم نور کے آغوش ناز میں
اک گل کدہ برنگ پری خانہ چاہئے

پھر ابر و باغ و نکہت و گل کے ہجوم میں
شمع و سرو و بادہ و پیمانہ چاہئے

پھر اس کی چشم مست پہ گیسو ہوں پر فشاں
پھر ابر شام گوں سر مے خانہ چاہئے

پھر چاندنی میں دامن دریا یہ اے ندیم
رقص شراب و گردش پیمانہ چاہئے

جوش‌ طرب نے حشر سا دل میں کیا بپا
پھر بے خودی کو گریۂ مستانہ چاہئے

اخترؔ وطن میں آ کے کھلا ہے یہ حسن راز
اس مختصر سی عمر میں کیا کیا نہ چاہئے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.