نذر وطن
by اختر شیرانی

نذر وطن پھر اے دل دیوانہ چاہئے
پھر ہر قدم پہ سجدۂ شکرانہ چاہئے

پھر سر زمیں وطن کی ہے نظروں کے سامنے
پھر لب پہ ایک نعرۂ مستانہ چاہئے

بچپن کی یاد لیتی ہے پھر دل میں چٹکیاں
پھر بے خودی بہ حجت طفلانہ چاہئے

برسوں کے بعد آئے ہیں باغ وطن میں ہم
پھر ہر کلی کو سجدۂ مستانہ چاہئے

کہسار سبز پوش نظر آئے دور سے
پھر لب پہ چار بیت کا افسانہ چاہئے

جس کوچے میں ہوئیں کبھی رسوائیاں نصیب
اس کا طواف با دل دیوانہ چاہئے

بخشا تھا جس نے پہلے پہل دل کو درد عشق
پھر اس کے در پہ سجدۂ شکرانہ چاہئے

پھر دل کو ہو یقیں نہ کسی کے وصال کا
پھر واقعہ بہ صورت افسانہ چاہئے

پھر شوق سے ملیں گے کسی گلعذار سے
پھر لب پہ شور بلبل مستانہ چاہئے

جھولا جھلائیں‌ گے کسی مست شباب کو
رقصاں فضا میں پھر مئے‌ و مے خانہ چاہئے

پائے طلب کو وادئ پرویں ہے نیم گام
پھر آرزو کو منزل جانانہ چاہئے

پھر خرمن سکوں کو ہیں درکار بجلیاں
پھر بے حجاب جلوۂ جانانہ چاہئے

پھر ذوق مے کشی کو ہے معراج کی طلب
کوثر کا بادہ چاند کا پیمانہ چاہئے

پھر شوق بن کے دل میں دھڑکتی ہے زندگی
پھر جنبش تبسم جانانہ چاہئے

پھر سینۂ امید میں رقصاں ہے برق طور
پھر پرسش مذاق کلیمانہ چاہئے

بالائے کوہ سایۂ ابر بہار میں
پروین و ماہتاب کا کاشانہ چاہئے

پھر اس حریم نور کے آغوش ناز میں
اک گل کدہ برنگ پری خانہ چاہئے

پھر ابر و باغ و نکہت و گل کے ہجوم میں
شمع و سرو و بادہ و پیمانہ چاہئے

پھر اس کی چشم مست پہ گیسو ہوں پر فشاں
پھر ابر شام گوں سر مے خانہ چاہئے

پھر چاندنی میں دامن دریا یہ اے ندیم
رقص شراب و گردش پیمانہ چاہئے

جوش‌ طرب نے حشر سا دل میں کیا بپا
پھر بے خودی کو گریۂ مستانہ چاہئے

اخترؔ وطن میں آ کے کھلا ہے یہ حسن راز
اس مختصر سی عمر میں کیا کیا نہ چاہئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse