نرگس مستانہ

نرگس مستانہ
by جگر مراد آبادی
300043نرگس مستانہجگر مراد آبادی

اپنا ہی سا اے نرگس مستانہ بنا دے
میں جب تجھے جانوں مجھے دیوانہ بنا دے

ہر قید سے ہر رسم سے بیگانہ بنا دے
دیوانہ بنا دے مجھے دیوانہ بنا دے

اک برق ادا خرمن ہستی پہ گرا کر
نظروں کو مری طور کا افسانہ بنا دے

ہر دل ہے تری بزم میں لبریز مئے عشق
اک اور بھی پیمانہ سے پیمانہ بنا دے

تو ساقی مے خانہ بھی تو نشہ و مے بھی
میں تشنۂ ہستی مجھے مستانہ بنا دے

اللہ نے تجھ کو مے و مے خانہ بنایا
تو ساری فضا کو مے و مے خانہ بنا دے

تو ساقئ مے خانہ ہے میں رند بلا نوش
میرے لئے مے خانہ کو پیمانہ بنا دے

یا دیدہ و دل میں مرے تو آپ سما جا
یا پھر دل و دیدہ ہی کو ویرانہ بنا دے

قطرے میں وہ دریا ہے جو عالم کو ڈبو دے
ذرے میں وہ صحرا ہے کہ دیوانہ بنا دے

لیکن مجھے ہر قید تعین سے بچا کر
جو چاہے وہ اے نرگس مستانہ بنا دے

عالم تو ہے دیوانہ جگر! حسن کی خاطر
تو اپنے لئے حسن کو دیوانہ بنا دے

کب تک نگہ یار نہ ہوگی متبسم
تو اپنا ہر انداز حریفانہ بنا دے

منکر تو نہ بن حسن کے اعجاز نظر کا
کہنے کے لئے اپنے کو بیگانہ بنا دے

جب تک کرم خاص کا دریا نہ امنڈ آئے
تو اور بھی حال اپنا سفیہانہ بنا دے

بت خانے آ نکلے تو کعبہ کی بنا ڈال
کعبے میں پہنچ جائے تو بت خانہ بنا دے

جو موج اٹھے دل سے ترے جوش طلب میں
سر رکھ کے وہیں سجدۂ شکرانہ بنا دے

جب مائل الطاف نظر آئے وہ خودبیں
تو ہر نگہ شوق کو افسانہ بنا دے

کونین بھی مل جائے تو دامن کو نہ پھیلا
کونین کو بھولا ہوا افسانہ بنا دے

پھر عرض کر اس طرح جگرؔ شوق و ادب سے
بے باک اگر جرأت رندانہ بنا دے

تجھ کو نگہ یار! قسم میرے جنوں کی
ناصح کو بھی میرا ہی سا دیوانہ بنا دے

میں ہوں ترے قدموں میں مجھے کچھ نہیں کہنا
اب جو بھی ترا لطف کریمانہ بنا دے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.