نرگس نظر کی مصیبت

نرگس نظر کی مصیبت
by حسن نظامی
319525نرگس نظر کی مصیبتحسن نظامی

شہزادی نرگس نظر میرزا شاہ رخ ابن بہادر شاہ کی بیٹی تھیں۔ غدر ۱۸۵۷ء میں ان کی عمر سترہ سال کی تھی۔ موجودہ لال قلعہ دہلی میں دیوان خاص اور موتی مسجد کے غرب میں اور گورا بارگ کے شرق میں ایک سنگین تالاب ہے، جس کے وسط میں ایک محل بنا ہوا ہے اور اس کے شمال سے نہر آتی ہے۔ سنگ مر مر کی جھلملیاں اور چراغ دان بنے ہوئے ہیں۔ ان پر سے نہر کا پانی گذرتا ہوا اس تالاب میں آتا تھا۔ میرزا شاہ رخ بہادر اسی جل محل میں رہتے تھے۔ ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا، اس لیے میرزا صاحب کو اپنی بیٹی نرگس نظر سے بہت ہی محبت تھی۔ جل محل کو کشمیری شالوں اور رومی قالینوں اور بنارسی کپڑوں سے خوب ہی آراستہ کیا گیا تھا۔ نرگس نظر کی طبیعت میں نفاست و نزاکت و سلیقہ مندی بہت زیادہ تھی۔ ان کا محل سارے قلعہ میں سب حویلیوں اور محلات سے زیادہ خوبصورت اور آراستہ سمجھا جاتا تھا۔ نرگس نظر کا نظام اوقات یہ تھا کہ وہ صبح سورج نکلنے کے بعد بیدار ہوتی تھیں۔ گرمی کے موسم میں ان کا چھپر کھٹ صحن میں بچھا یا جاتا تھا، جہاں سنگ مرمر کا فرش تھا۔ چھپر کھٹ کے پائے اور ڈنڈے سونے کے تھے۔ اندر ریشمی تکیے رکھے رہتے تھے۔ چار نازک نازک نرم نرم تکیے سرہانے ہوتے تھے اور سرہانے کے تکیوں کے پاس دو چھوٹے چھوٹے گول گول اور تکیے ہوتے تھے جن کو گال (گل) تکیہ کہا جاتا تھا۔ یہ تکیے رخسار کی ٹیک کے لیے تھے کہ اگر شہزادی کا سرتکیوں سے نیچے آجائے تو گل تکیے ان کے رخسار کو تکلیف سے بچالیں۔ دو تکیے ذرا بڑے بڑے دونوں پہلوؤں میں ہوتے تھے کہ ان سے شہزادی صاحبہ اپنے گھٹنے کو سہارا دے سکیں۔ رات کو جب نرگس نظر مسہری کے اندر جاتی تھیں تومولسری اور جوہی اور چمپا کے پھول ان کے گل تکیوں کے پاس رکھے جاتے تھے کہ رات کو ان کی خوشبو شہزادی کو مسرور کرتی رہے۔ جوں ہی نرگس نظر مسہری میں گئیں، چار ناچنے والی چھوکریاں آ جاتی تھیں اور ہلکے سروں میں گاتی تھیں، جب شہزادی کو نیند آتی تھی۔ صبح کو بھی سو رج نکلنے سے پہلے یہ ناچنے گانے والی لڑکیاں مسہری کے قریب آکر گاتی تھیں اور ان کی سریلی آوازوں کو سن کر شہزادی صاحبہ بیدار ہوتی تھیں۔ شہزادی بیدار ہونے کے بعد مسہری کے اندر بیٹھ جاتیں اور دیر تک جمائیاں لیتیں، انگڑائیاں لیتیں اور گانے والی لڑکیاں ان سے ہنسی کی باتیں کرتیں۔ ایک کہتی، اے حضورجمائی آتی ہے رومال حاضرکروں، منہ کو ڈھک لیجئے۔ دوسری کہتی، سرکار کی انگڑائی دیکھنے کو مچھلیاں بیتاب ہو ہو کر پانی کے چہرے پر چلی آرہی ہیں۔ نرگس نظر آنکھیں مل کر اور مسکرا کر کہتیں چل دور موئی، مردار کیسی جھوٹی باتیں بناتی ہے، تو چھوکری کہتی، میں جھوٹ کہتی ہوں یا سچ، آئینے سے پوچھ لیجئے۔ وہ بھی سامنے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے اندر بھی تو بال بکھر رہے ہیں۔ وہ بھی تو مہندی لگی لال لال انگلیاں اونچی کرکے سرکار کی انگڑائی کی تعریف کر رہا ہے۔ وہاں بھی تو ایک مستی کا عالم نظرآہا ہے۔ تیسری کہتی، آفتاب کی کرنیں لال لال بادلوں سے ایسی نکلیں جیسے سرکار کے لال لال ہونٹوں سے سفید سفید دانت، اور یہ رخسار تو صبح صادق کا نور ہیں۔ بال بکھر کر جو چہرے پر آئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے، چودہویں رات کے چاند پر کالے بادل چھائے ہوئے چلے آتے ہیں، مگر چاندنی سے مات ہو کر ان کا کلیجہ شق ہو گیا ہے اور چاند کے چاروں طرف اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو بکھیر دیا ہے۔ نرگس نظر یہ سن کر مسکراتی ہوئی مسہری کے باہر آتیں۔ طشت چوکی پر جاتیں، پھر باہر آکر کھلی اور بیسن سے منہ ہاتھ دھوتیں۔ پھر جوڑا بدلا جاتا۔ ناشتہ کیا جاتا۔ اس کے بعد گھر کی آرائش کو خود جاکر دیکھتیں اور نئی نئی ایجاد یں چیزوں کے سنوارنے میں ہوتیں۔ دوپہر کا کھانا کھا کر گانا ہوتا۔ شام کو چمن مین گلگشت کا معمول پورا کیا جاتا۔ رات کے کھانے میں بڑی بہار ہوتی۔ باجے بج رہے ہیں، گانے ہو رہے ہیں اور مصاحب لڑکیوں کے ساتھ کھانا کھایا جا رہا ہے۔ قلعہ کی آخری راتجس رات بہادر شاہ بادشاہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں گئے اور یقین ہوگیا کہ صبح انگریز دہلی کو مفتوح کر لیں گے تو نرگس نظر چپ چاپ جل محل کے کنارے پر کھڑی چاندنی کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کا عکس تالاب میں پڑ رہا تھا اور ان پر اپنی دید کا ایک عجیب عالم محویت طاری تھا۔ یکایک ان کے باپ میرزا شاہ رخ اندر آئے اور انہوں نے کہا، ’’نرگس بیٹا! میں ابا حضرت (بہادر شاہ) کے ہمراہ جانا چاہتا ہوں۔ تم ابھی چلوگی یا سواری کا بندوبست کروں، صبح آجانا۔‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’ابا جان! آپ بھی ابھی نہ جائیے۔ پچھلی رات میرے ساتھ چلیے گا۔ میں دادا حضرت کے ساتھ جانا مناسب نہیں سمجھتی۔ انگریزی فوج انہی کی تلاش کرے گی اور جو لوگ ان کے ساتھ ہوں گے، وہ سب مجرم سمجھے جائیں گے۔ اس لیے ہمایوں کے مقبرے میں دادا حضرت کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔ غازی نگر(غازی آباد) میں چلیے۔ وہاں میری انا کا گھر ہے اور سنا ہے بہت اچھی محفوظ جگہ ہے۔ گمنامی اختیار کرکے چلنا چاہئے۔ جب یہ بلا دور ہو جائے گی پھر یہاں آجائیں گے۔‘‘ میرزا نے کہا، ’’اچھا جیسی تمہاری رائے ہو۔ غازی نگر جانے کے لیے رتھوں کا بندوبست کرتا ہوں، تمہارے ساتھ کون کون جائے گا۔‘‘ نرگس نظر نے جواب دیا، ’’کوئی نہیں، صرف میں اکیلی چلوں گی، کیونکہ نوکروں کا ساتھ رکھنا بھی نا مناسب ہے اور نوکر ساتھ جانے کے لیے تیار بھی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ میرزا یہ سن کر باہر چلے گئے اور نرگس نظر پھر ماہتاب اور عالم آب کو دیکھنے لگیں۔ کچھ دیر کے بعد نرگس نظر نے نوکر عورتوں کو آواز دی مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ معلوم ہواسب بھاگ گئے اور نرگس نظر سارے جل محل میں اکیلی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس نظر نے حاکمانہ آواز دی اور جواب میں کوئی بھی نہ بولا۔ نرگس نظر گھبرا کر محل کے اندر گئیں۔ شمعیں روشن تھیں، مگر کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ نرگس نظر کو اندرڈر لگا اور وہ پھر صحن میں آ گئیں۔ قلعہ میں جگہ جگہ سے لوگوں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چاروں طرف سےگھروں کے رہنے والے نکل نکل کر جا رہے ہیں۔ نرگس نظر نے بہت دیر باپ کی راہ دیکھی مگر وہ نہ آئے اور نرگس نظر گھبرا کر ر ونے لگیں۔ رات کے دو بجے ایک خواجہ سرا محل میں آیا اور اس نے کہا، ’’صاحب عالم نے فرمایا ہے کہ انگریزی جاسوس میری تلاش میں قلعہ کے اندر اور باہر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ غازی نگر نہیں جا سکتا۔ سواری کا انتظام کر دیا ہے۔ تم خواجہ سر ا کے ساتھ چلی جاؤ اور میں بھیس بدل کر کہیں اور چلا جاتا ہوں۔‘‘ نرگس نظر نے گھبرا کر کہا، ’’آخر کہاں جانے کا ارادہ ہے؟‘‘ خواجہ سر ا بولا، ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ نرگس نظر نے حاکمانہ لہجے میں کہا، ’’جایہ معلوم کر کے آ کہ ابا حضرت کہاں جانے والے ہیں۔ وہ لباس بدل کر میرے ساتھ غازی نگر کیوں نہیں چلتے؟‘‘خواجہ سرا فوراً واپس گیا اور نرگس نظر صحن میں ٹہلتی رہی۔ کچھ دیر کے بعد خواجہ سرا واپس آیا اور اس نے کہا، ’’ابا حضرت سائیس کے کپڑے پہن کر قلعہ کے باہر چلے گئے اورکوئی نہیں جانتا کہ کہاں چلے گئے۔ آپ کی سواری کے لیے رتھ تیار ہے۔‘‘ نرگس نظر کو رونا آ گیا اور ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے نہایت بے کسی اور بے بسی کی حالت میں ہچکیاں لے کر آنسو بہائے۔ انہوں نے جواہرات اور زیورات کا صندوقچہ اور چند ضروری کپڑے ساتھ لیے جن کو خواجہ سرا نے اٹھا لیا اور جل محل سے نکلیں اور سوار ہونے سے پہلے مڑکر جل محل اور اس کی آرائش کو بہت دیر تک کھڑے ہوکر دیکھا۔ پھر کہا، ’’خبر نہیں تجھ کو پھر دیکھنا نصیب ہوگا یا آج تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو رہا ہے۔‘‘ رات کے تین بج چکے تھے۔ نرگس نظر رتھ میں بیٹھی غازی نگر(غازی آبادی) کی طرف جارہی تھیں۔ صبح آٹھ بجے غازی آباد پہنچ گئیں۔ راستے مین ان کو بہت لوگ آتے جاتے ملے، مگر کسی نے ان کے رتھ کی مزاحمت نہیں کی۔ غازی آباد میں نرگس نظر کی انا کا گھر مشہور تھا۔ جوں ہی نرگس نظر انا کے گھر کے سامنے رتھ سے اتریں، انا دوڑتی ہوئی گھر کے باہر آگئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے شہزادی کی بلائیں لیں اور اندر لے جاکر بٹھایا اور اپنی حیثیت سے زیادہ خاطر مدارات کی۔ مصیبتنرگس نظر دو تین روز انا کے گھر میں آرام سے رہیں۔ یکایک خبر مشہور ہوئی کہ باد شاہ گرفتار ہوگئے اور کئی شہزادے قتل کر دیے گئے اور فوج غازی آبا د کو لوٹنے آرہی ہے۔ نرگس نظر نے جواہرات کا صندوقچہ انا سے کہہ کر زمین میں دفن کرا دیا اور مصیبت کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر میں سکھ فوج غازی آباد میں داخل ہوئی اور اس نے باغیوں کی تلاش شروع کی۔ مخبروں نے کہا، ’’بادشاہ کی پوتی اپنی انا کے گھر میں موجود ہے۔‘‘ دو سکھ سردار چار سپاہیوں کے ساتھ انا کے گھر میں آئے اور انہوں نے انا کو اور سب گھر والوں کو پکڑ لیا۔ نرگس نظر کوٹھری میں چھپ گئی تھیں۔ ان کو بھی کو اڑ توڑ کر باہر نکالا گیا اور بے پردہ سامنے کھڑا کیا گیا۔ سردار نے پوچھا، ’’کیا تم بہادر شاہ کی پوتی ہو؟‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’میں ایک آدمی کی بیٹی ہوں۔ بادشاہ کی اولاد ہوتی تو اس غربت گھر میں کیوں آتی۔ اگر خدا نے بادشاہ کی پوتی بنایا ہوتا تو تم اس طرح بے پردہ مجھ کوسامنے کھڑا نہ کرتے۔ تم ہندوستانی ہو، تم کو شرم نہیں آتی کہ اپنے ملک کی عورتوں پر ظلم کرتے ہو۔ سردار نے کہا، ’’ہم نے کیا ظلم کیا؟ ہم تو یہ دریافت کرتے ہیں کہ تم کون ہو؟ ہم نے سنا ہے کہ تم بہادر شاہ کی پوتی ہو اور تمہارے باپ نے بہت سے انگریزوں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قلعہ کے اندر قتل کیا تھا۔‘‘ نرگس نظر نے کہا، ’’جو کرتا ہے وہی بھرتا ہے۔ اگر میرے باپ نے ایسا کیا ہوگا تو ان سےپوچھو۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں نے کسی کو نہیں مارا۔‘‘ یہ سن کر دوسرا نوجوان سکھ سردار بولا، ’’ہاں تم تو آنکھوں سے قتل کرتی ہو۔ تم کو تلواروں اور ہتھیاروں سے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘نرگس نظر نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا، حالانکہ اس کی زندگی میں غیر مردوں سے بات کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، ’’خاموش رہو۔ بادشاہوں سے ایسی بے تمیزی کے ساتھ بات نہیں کرتے۔ تمہاری زبان گدی کے پیچھے سے نکال لی جائے گی۔‘‘ نوجوان یہ سن کر بگڑا اور اس نے آگے بڑھ کر نرگس نظر کے بال پکڑ لیے اوران کو روز سے جھٹکا دیا۔ بوڑھے سکھ سردار نے نوجوان سردار کو روکا اور کہا، ’’عورت کےساتھ ایسی زیادتی کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ نوجوان سردار نے یہ بات سن کر بال چھوڑ دیے۔ کرایہ کی بیل گاڑی منگوائی گئی اور اس میں نرگس نظر کو سوار کیا گیا۔ انا اور اس کے گھر والے بھی سب قید ہوکر پیدل ساتھ چلے۔ نرگس نظر سے پوچھا گیا، ’’تمہارا زیور اور روپیہ پیسہ کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’میں خود ہی زیور ہوں اور خود ہی سمجھنے والوں کے لیے جواہر اور دولت ہوں، میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر دونوں سردار خاموش ہوگئے اور بہلی کو دہلی کی طرف لے چلے۔ ہینڈن ندی کے پاس گاؤں کے جاٹوں اور گوجروں نے سکھ فوج والو ں پر بندوقیں چلائیں اور دیر تک ان کی آپس میں لڑائی ہوتی رہی۔ سکھ تھوڑے تھے اور گاؤں والے زیادہ تھے۔ سکھ سب مارے گئے اور گاؤں والے قیدیوں کو اپنے ساتھ گاؤں میں لے گئے۔ گنواروں نے نرگس نظر کے جسم پر جودو چار قیمتی زیور تھے، ان کو اتار لیا اور قیمتی کپڑے بھی اتروا لیے اور کسی چماری کا پھٹا ہوا لہنگا اور پھٹا ہوا کرتہ اور میلا دوپٹہ پہننے کو دے دیا۔ نرگس نظر نے رورو کر اپنا برا حال کر لیا اور مجبوراً تن ڈھانپنے کو یہ کپڑے پہنے۔ تھوڑی دیر میں پاس کے گاؤں کے چند مسلمان گنوا ر آئے اور ان کے نمبر دار نے نرگس نظر کو گوجروں سے خرید لیا اور اپنے گاؤں میں لے گیا۔ یہ لوگ ذات کے رانگھڑ تھے اور کچھ لوگ تگا قوم کے مسلمان تھے۔ نمبر دار نے اپنے لڑکے کا پیغام دیا کہ تیری شادی اس کے ساتھ کردیں۔ یہ بڈھا آدمی تھا۔ اس کا لڑکا اگر چہ گنوار تھا، لیکن صورت شکل کا اچھا تھا۔ نرگس نظر نے ہاں کر لی اور گاؤں کے قاضی نے اس کا نکاح پڑھا دیا اور نرگس نظر تین چار مہینے نمبر دار کے گھر میں نئی دلہن بنی آرام سے بسر اوقات کرتی رہیں۔ دوسری مصیبتانگریزوں کا قبضہ پوری طرح ہوگیا تھا اور ان کے جاسوس جگہ جگہ خبریں لیتے ہوئے پھر رہے تھے۔ کسی جاسوس نے دہلی کے حاکم کو خبر دی کہ میرزا باغی دستیاب نہیں ہوئے، مگر ان کی بیٹی فلاں گاؤں میں نمبردار کے گھر میں موجود ہے۔ انگریز حاکم نے اس گاؤں میں پولیس کو بھیجا۔ میرٹھ کی پولیس نے آکر گاؤں کا محاصرہ کر لیا اور نرگس نظر اور ان کے خاوند اورسسر ے کو گرفتار کر کے دہلی میں لایا گیا۔ حاکم نے نرگس نظرسے میرزا کے متعلق بہت سوالات کیے، مگر جب کوئی مفید مطلب جواب نہ ملا تو حکم دیا کہ نمبر داراور اس کا بیٹا باغی معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں نے ایک باغی کی بیٹی کو پناہ دی ہے۔ اس واسطے ان دونوں کو جیل بھیج دیا جائے اوریہ عورت دہلی میں کسی مسلمان کے حوالے کر دی جائے۔ چنانچہ نمبردار اور اس کا بیٹا دس دس سال کےلیے جیل بھیج دیے گئے اور نرگس نظر سے پوچھا گیا کہ وہ کس کے ہاں رہنا چاہتی ہے۔ شہزادی نے جواب دیا اگر میرے خاندان کے آدمی دہلی میں ہوں تو ان کے پاس بھیج دیا جائے۔ معلوم ہوا تیموریہ خاندان کے لوگ ابھی تک یا تو رو پوش ہیں یا جنگلوں اور دیہات میں مقیم ہیں۔ دہلی شہر میں ابھی کوئی نہیں آیا۔ اس واسطے نرگس نظر ایک فوجی مسلمان سپاہی کے حوالے کر دی گئیں جو ان کو اپنے گھر میں لے گیا۔ اس سپاہی کی بیوی موجود تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک قبول صورت جوان عورت گھر میں آئی ہے تو اس نے ایک دو ہتٹر اپنے خاوند کے مارا اور نرگس نظر کو بھی دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دیا اوریہ پہلاموقع تھا کہ نرگس نظر کو کسی نے دھکا دیا۔ سپاہی گھر کے باہر آیا اور نرگس نظر کو ساتھ لے کر اپنے ایک دوست کے ہاں لے گیا۔ وہ بڑی عمر کے ایک مسلمان تھے اور گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ انہوں نے شہزادی کا حال سنا تو رونے لگے اور بہت محبت کے ساتھ اپنے گھر میں جگہ دی اور نرگس نظر ایک رات آرام سے اس گھر میں رہیں۔ دوسری رات کو نرگس نظر سوتی تھیں کہ چند آدمیوں نے ان کا منہ اپنے ہاتھوں سے بند کیا اور اٹھا کر کہیں لے گئے۔ نرگس نظر نے ہر چند ہاتھ پاؤں مارے، مگر انہوں نے ایسا مضبوط پکڑا تھا کہ یہ جنبش نہ کر سکیں۔ وہ لوگ اسی گاؤں کے رہنے والے تھے جہاں کے نمبردار کے بیٹے سے نرگس نظر کا نکاح ہوا تھا، مگر وہ دہلی کے قریب ایک گاؤں میں لے گئے اور وہاں ایک چھپر میں ٹھہرایا اور ایک چار پائی سونے کے لیے دے دی۔ یہ گاؤں بھی تگا مسلمانوں کا تھا۔ نرگس نظر جس گھر میں رہتی تھیں، وہ نمبر دار کا گھر تھا اور نمبردار بہت نیک چلن آدمی تھا۔ تین چار سال تک نرگس نظر اس گھر میں رہیں۔ وہ سارے گھر کا کام کرتی تھیں، لیکن گوبر تھا پنا اور دودھ دو ہنا ان کو نہ آتا تھا۔ چار سال کے بعد ان کا خاوند رہا ہو گیا اور وقت سے پہلے گورنمنٹ نے اس کو رہائی دے دی اور وہ نرگس نظرکو اس گاؤں سے اپنے گھر لے گیا، جہاں ساری عمرا نہوں نے گذار دی اور ان کے کئی بچے ہوئے اور۱۹۱۱ء میں نرگس نظر کا انتقال ہوگیا۔ مصیبت کی ایک راتنرگس نظر کہتی تھیں کہ جب میں دہلی کے قریب تگا نمبر دار کے گھر میں رہتی تھی، اس زمانے کا ذکر ہے۔ برسات کا موسم تھا اور مجھے بہت تیز بخار چڑھا ہوا تھا۔ رات کے وقت بادل گرج رہا تھا، بجلی چمک رہی تھی اور میں اکیلی اپنے چھپر میں گاڑھے کی ایک میلی چادر اوڑھے کھری چارپائی پر لیٹی تھی۔ خواب میں دیکھا گویا جل محل میں سونے کے جڑاؤ چھپر کھٹ کے اندر لیٹی ہوں۔ جوہی اور چمپا اور مولسری کے پھول اور ریشمی تکیے میرے پاس ہیں اور گانے والی لڑکیاں دھیمے سروں میں گارہی ہیں اور مجھے عجب لطف آرہا ہے۔ اسی خواب کی حالت میں، میں نے ایک گانے والی کو آواز دی کہ مسہری کا پردہ اٹھا اور مجھ کو سہارا دے کر بٹھا۔ میں نے دیکھا کہ دوڑی ہوئی آئی اور اس نے مجھے گود میں لے کر اٹھایا اور اٹھانے میں شوخی سے ذرا مجھ کو دبا بھی دیا۔ میں نے اس کے اک طمانچہ مارا اور وہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔ میری آنکھ کھل گئی۔ اندھیرا بہت زیادہ تھا۔ مجھ کو اس خواب نے اور جل محل کی یاد نے بے قرار کر دیا اور میں چھپر کے دروازے پر گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئے آکر کھڑی ہوگئی۔ مینہ بہت زور سے برس رہا تھا۔ بجلی چمکتی تھی تو صحن کا پانی دکھائی دیتا تھا اور مجھ کو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جل محل کے صحن کے کھڑی ہوئی ماہتاب اور عالم آب کا تماشہ دیکھ رہی ہوں۔ جب سے مصیبت کے دن آئے تھے، میں کبھی نہیں گھبرائی اور میں نے کبھی اچھے دنوں کو یاد نہیں کیا تھا، لیکن ا ٓج خبر نہیں کیا بات تھی کہ میں جل محل کو یاد کرتی تھی اور یہ بھی خیال آتا تھا کہ میں شہنشاہ ہند کی پوتی ہوں اور یہ بھی خیال آتا تھا کہ میں اپنے باپ کی لاڈلی ہوں اور یہ بھی خیال آتا تھا کہ میں سترہ برس کی عمر تک شہزادی تھی اور آج ایک مفلس نادار نوکرانی ہوں۔ میرے ہاں سارے قلعہ سے اچھے اور نفیس کپڑے تھے اور ہر چیز نہایت صفائی اور ستھرائی سے رکھی جاتی تھی اور یہی میرا رات دن کا مشغلہ تھا، مگر آج برعکس ہے۔ انا کےگھر میں جوزیور اور جواہرات دفن کرائے تھے، بعد میں اس کو خفیہ طور سے کھود کر دیکھا توسب کچھ غائب تھا۔ خبر نہیں کون لے گیا۔ گویا پچھلے زمانے کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی۔ صرف میں باقی ہوں اور وہ بھی بدلی ہوئی اور ہر بات میں مٹی ہوئی۔ ان خیالات کا مجھ پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ مجھے غش آگیا اور میں وہیں بیہوش ہو کر گر پڑی اور صبح تک بیہوش پڑی رہی۔ صبح ہوئی تو وہی میں تھی جس کو نگو کہہ کر سب پکارتے تھے اور وہی چولہا تھا جہاں میں روٹی پکاتی تھی اور وہی سب گھر کے کام تھے جو مجھے رات دن لونڈیوں سے بڑھ کر محنت کرنے پڑتے تھے اور میں کہتی تھی ، خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.