نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
تجھ سے جو اتنی ارادت ہے تو کس بات سے ہے
گرچہ تو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے
رونق بزم مہ مہر تری ذات سے ہے
اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے
خستگی کا ہو بھلا جس کے سبب سے سر دست
نسبت اک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے
ہاتھ میں تیرے رہے تو سن دولت کی عناں
یہ دعا شام و سحر قاضی حاجات سے ہے
تو سکندر ہے مرا فخر ہے ملنا تیرا
گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے
اس پہ گزرے نہ گماں ریوو ریا کا زنہار
غالبؔ خاک نشیں اہل خرابات سے ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |