نصیحت گرو دل لگایا تو ہوتا
نصیحت گرو دل لگایا تو ہوتا
کبھی خنجر عشق کھایا تو ہوتا
نہ آتا کہ آتا شکایت نہ رہتی
مجھے انجمن میں بلایا تو ہوتا
نہ مانوں گا ناصح کہ دل پر ہے قابو
لگا کر کسی سے دکھایا تو ہوتا
یہ مانا عدو پر ہے میلان خاطر
کوئی روز اس کو ستایا تو ہوتا
نہ آتے تو خنجر ہی وہ بھیج دیتے
کہ ہم نے گلے سے لگایا تو ہوتا
مری سخت جانی کے شکوے بجا تھے
کبھی دست نازک اٹھایا تو ہوتا
ظہیرؔ آج دعویٰ ہے جن کو زباں کا
سخن اپنا ان کو سنایا تو ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |