نظارۂ پیہم کا صلا میرے لیے ہے
نظارۂ پیہم کا صلا میرے لیے ہے
ہر سمت وہ رخ جلوہ نما میرے لیے ہے
اس چہرۂ انور کی ضیا میرے لیے ہے
وہ زلف سیہ تاب دوتا میرے لیے ہے
زنہار اگر اہل ہوس تجھ پہ فدا ہوں
یہ مرتبۂ صدق و صفا میرے لیے ہے
بن کر میں رضاکار مہیائے فنا ہوں
آوازۂ حق بانگ درا میرے لیے ہے
خوشنودۂ فجار کے پیرو ہیں یزیدی
تقلید شہ کرب و بلا میرے لیے ہے
محروم ہوں مجبور ہوں بے تاب و تواں ہوں
مخصوص ترے غم کا مزا میرے لیے ہے
سرمایۂ راحت ہے فنا کی مجھے تلخی
اس زہر میں سامان بقا میرے لیے ہے
جنت کی ہوس ہو تو میں کافر، کہ پریشاں
اس شوخ کی خوشبوئے قبا میرے لیے ہے
پہلے بھی کچھ امید نہ تھی چارہ گروں کو
اور اب تو دوا ہے نہ دعا میرے لیے ہے
مر جاؤں گا مے خانے سے نکلا جو کبھی میں
نظارۂ مے روح فزا میرے لیے ہے
تشخیص طبیباں پہ ہنسی آتی ہے حسرتؔ
یہ درد جگر ہے کہ دوا میرے لیے ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |