نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں
نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں
ہم ان کے ہوئے وہ ہمارے ہوئے ہیں
ہمیں تو بھلے لگتے ہیں اور بھی اب
وہ زیور کو اپنے اتارے ہوئے ہیں
نہیں پاس کچھ ایک دل ہے سو وہ بھی
قمار محبت میں ہارے ہوئے ہیں
مزے وصل میں جو اٹھائے تھے اے دل
جدائی میں اب وہ ہی آرے ہوئے ہیں
ہمیں ہوش ہے اب کہاں تن بدن کا
کہ مجذوبؔ ان کے پکارے ہوئے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |