نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں

نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
by آرزو لکھنوی

نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
ہے نہ پینے کا یہ مطلب کہ پیے بیٹھا ہوں

رخنہ اندازئ اندوہ سے غافل نہیں میں
ہے جگر چاک تو کیا ہونٹ سیے بیٹھا ہوں

کیا کروں دل کو جو لینے نہیں دیتا ہے قرار
جو مقدر نے دیا ہے وہ لیے بیٹھا ہوں

التفات اے نگہ ہوشربا اب کیوں ہے
پاس جو کچھ تھا وہ پہلے سے دیے بیٹھا ہوں

دل پر کیف سلامت کہ اکیلے میں بھی
ایک بوتل سے بغل گرم کیے بیٹھا ہوں

آرزوؔ جلتے ہوئے دل کے شرارے ہیں یہ اشک
آگ پانی کے کٹوروں میں لیے بیٹھا ہوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse