نظر تج پہ ہے کیا تماشا کا حاجت
نظر تج پہ ہے کیا تماشا کا حاجت
نہیں سبز خط آگے چمپا کا حاجت
طبیباں کریں منج کوں بالی سوں دارو
کہ بالی ہیں موہن ہے بالا کا حاجت
ہمیں نیشکر نمنے ہلجے ہیں بند میں
نہیں ہور ہمنا کوں جالا کا حاجت
خماری نین تھے کھلے پھول جیو میں
نہیں مو کو دونا و بالا کا حاجت
مرا دل ہے زر بفت کا کارخانہ
نہیں منج کوں بازار والا کا حاجت
تو کہنیاں کتاباں کے جیو میں لکھیا ہوں
معما ہے نیں کھول کہنا کا حاجت
انگوٹھی سلیماں کی تج ہات میں ہے
سکندر کے درپن اجالا کا حاجت
مرا دل کندن حسن کا کھان ہے تو
نہیں ہے سناری تقاضا کا حاجت
ہمن مدعا مدعی نا بجھے کچ
نکو بحث کرنیں ہے اعدا کا حاجت
معانیؔ ترا زرگری کوئی نہ بوجھیں
کہ اس علم میں نیں ہے دانا کا حاجت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |