نظیر جس کی مل سکے وہ اپنا ماجرا نہ تھا
نظیر جس کی مل سکے وہ اپنا ماجرا نہ تھا
لکھا نہ تھا پڑھا نہ تھا سنا نہ تھا ہوا نہ تھا
زمانہ میں جو حادثہ مرے لئے نیا نہ تھا
کسی نے بھی سنا نہ تھا کہیں بھی وہ ہوا نہ تھا
جو اس گلی میں رہ گئے خوشی کو اپنی دخل کیا
قسم کسی کی ناصحا قدم ہی اٹھ سکا نہ تھا
غضب میں جان پڑ گئی نہ پوچھ راحت عدم
کسی کو کچھ غرض نہ تھی کسی سے مدعا نہ تھا
جو دفتر زمانہ پر نگاہ اپنی پڑ گئی
جواب ہی نہ جس کا ہو وہ کوئی ماجرا نہ تھا
خیال آرزو ہی تھا کہ یاس نے یہ دی خبر
وہ کعبہ تیرا ڈھ گیا ابھی جو بن چکا نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |