نعت حضرت رسالت علیہ السلام

نعت حضرت رسالت علیہ السلام
by مرزا محمد رفیع سودا
294220نعت حضرت رسالت علیہ السلاممرزا محمد رفیع سودا

ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی
ہنر پیدا کر اول ترک کیجو تب لباس اپنا
نہ ہو جوں تیغ بے جوہر وگرنہ ننگ عریانی
فراہم زر کا کرنا باعث اندوہ دل ہووے
نہیں کچھ جمع سے غنچے کو حاصل حز پریشانی
خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کی
نہ جھاڑے آستین کہکشاں شاہوں کی پیشانی
عروج دست ہمت کو نہیں کچھ قدر بیش و کم
سدا خورشید کی جگ پر مساوی ہے زرا فشانی
کرے ہے کلفت ایام ضائع قدر مردوں کی
ہوئی جب تیغ زنگ آلود کم جاتی ہے پہچانی
اکیلا ہو کے رہ دنیا میں گر جینا بہت چاہے
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
اذیت وصل میں دونی جدائی سے ہے عاشق کو
بہت رہتا ہے نالاں فصل گل میں مرغ بستانی
موقر جان ارباب ہنر کو بے لباسی میں
کہ ہو جو تیغ با جوہر اسے عزت ہے عریانی
بہ رنگ کوہ رہ خاموش حرف نا سزا سن کر
کہ تابدگو صداے غیب سے کھینچے پشیمانی
نہیں غیر از ہوا کوئی ترقی بخش آتش کا
نفس جب تک ہے داغ دل سے فرصت کیوں کے ہو پانی
یہ روشن ہے بہ رنگ شمع ربط یاد و آتش سے
موافق گر نہ ہو وے دوست ہے وہ دشمن جانی
کرے ہے دہر زینت ظالموں پر تیرہ روزی کو
کہ زیب ترک چشم یار سرمہ ہے صفا ہائی
طلوع مہر ہو پامال حیرت آسماں اوپر
لکھوں بہر غزل گر اس زمیں میں مطلع ثانی

مطلع ثانی

عجب ناداں ہیں وہ جن کو ہے عجب تاج سلطانی
فلک بال ہما کو پل میں سونپے ہے مگس رانی
نہیں معلوم ان نے خاک میں کیا کیا ملا دیکھا
کہ چشم نقش پا سے تا عدم نکلی نہ حیرانی
ہماری آہ تیرا دل نہ نرماوے تو یا قسمت
وگرنہ دیکھ آئینے کو پتھر ہوگئے پانی
تری زلفوں سے اپنی روسیا ہی کہ نہیں سکتا
کہ ہے جمعیت خاطر مجھے ان کی پریشانی
زمانے میں نہیں کھلتا ہے کار بستہ حیراں ہوں
گرہ غنچوں کی کھولے ہے صبا کیوں کر بہ آسانی
جنوں کے ہاتھ سے سرتا قدم کاہیدہ اتنا ہوں
کہ اعضا دیدۂ زنجیر کی کرتے ہیں مژگانی
نہ رکھا جگ میں رسم دوستی اندوہ روزی نے
مگر زانو سے اب باقی رہا ہے ربط پیشانی
سیہ بختی میں اے سوداؔ نہیں طول سخن لازم
نمط خامے کے سر کٹوائے گی ایسی زباں دانی
سمجھ اے تا قباحت فہم کب تک یہ بیاں ہوگا
اداے چین پیشانی و لطف زلف طولانی
نہیں ہے ان سے ہرگز فائدہ غیر از پشیمانی
نظر رکھنے سے حاصل ان کی چشم و زلف کے اوپر
مگر بیمار ہووے ضعف یا کھینچے پریشانی
نکال اس کفر کو دل سے کہ اب وہ وقت آیا ہے
برہمن کو صنم کرتا ہے تکلیف مسلمانی
زہے دین محدم پیروی میں اس کی جو ہوویں
رہے خاک قدم سے ان کی چشم عرش نورانی
ملک سجدہ نہ کرتے آدم خاکی کو گر اس کی
امانت دار نور احمدیؐ ہوتی نہ پیشانی
اسی کو آدم و حوا کی خلقت سے کیا پیدا
مراد الفاظ سے معنی ہے تا آیات قرآنی
خیال خلق گر اس کا شفیع کافراں ہووے
رکھیں بخشش کے سر منت یہودی اور نصرانی
زباں پر اس کی گزرے حرف جس جا گہہ شفاعت کا
کرے واں ناز آمرزش پہ ہریک فاسق و زانی
رکھا جب سے قدم مسند پہ آ ان نے شریعت کی
کرے ہے موج بحر معدلت تب سے یہ طغیانی
اگر نقصان پر خس کے شرر کا ٹک ارادہ ہو
کرے کو آگ کے دو ہیں کرے غرق آن کر پانی
موافق گر نہ کرتا عدل اس کا آب و آتش کو
تو کوئی سنگ سے بندھتی تھی شکل لعل رمانی
یہ کیا انصاف ہے یارب کہ طیر و وحش تک جگ میں
اس امن و عیش سے اپنی بسر اوقات لے جانی
پلے ہے آشیاں میں باز کے بچہ کبوتر کا
شباں نے گرگ کو گلے کی سونپی ہے نگہ بانی
ہما آسا ہے پرداز ملخ اوج سعادت پر
کرے ہے مور چڑھ کر سینہ دد پر سلیمانی
کھلے ہیں غنچہ گل باغ میں خاطر سے بلبل کی
جو اب اوراق جمعیت کو ہوتی ہے پریشانی
جہاں انصاف سے ہر گاہ اب معمور ہے اتنا
تو اس کے آگے ہوگی عدل کی کیا کچھ فراوانی
ہزار افسوس اے دل ہم نہ تھے اس وقت دنیا میں
وگرنہ کرتے یہ آنکھیں جمال اس کے سے نورانی
نہ ہونے سے جدا سایے کے اس قامت سے پیدا ہے
قیامت ہوئے گا دلچسپ وہ محبوب سبحانی
جسے یہ صورت و سیرت کرامت حق نے کی ہووے
بجا ہے کہیے ایسے کو اگر اب یوسف ثانی
معاذ اللہ یہ کیا لفظ بے موقع ہوا سرزد
جو اس کو پھر کہوں تو ہوؤں مردود مسلمانی
کدھر اب فہم ناقص لے گیا مجھ کو نہ یہ سمجھا
کہ وہ مہر الوہیت ہے یہ ہے ماہ کنعانی
جو صورت اس کی ہے لاریب ہے وہ صورت ایزد
جو معنی اس میں ہیں بے شک وہ ہیں معنی ربانی
حدیث من رآنی دال ہے اس گفتگو اوپر
کہ دیکھا جن نے اس کو ان نے دیکھی شکل یزدانی
غرض مشکل ہمیں ہوتی کہ پیدا کرکے ایسے کو
خدا گریہ نہ فرماتا نہیں کوئی مرا ثانی
بس آگے مت چل اے سوداؔ میں دیکھا فہم کو تیرے
کر استغفار اب اس منہ سے ویسے کی ثنا خوانی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.