نقش طلسم وہم ہے دنیا کہیں جسے

نقش طلسم وہم ہے دنیا کہیں جسے (1930)
by سید واجد علی فرخ بنارسی
324280نقش طلسم وہم ہے دنیا کہیں جسے1930سید واجد علی فرخ بنارسی

نقش طلسم وہم ہے دنیا کہیں جسے
نیرنگئی نظر ہے تماشا کہیں جسے

وہ سامنے ہیں اور نہیں طاقت نگاہ
بے پردگی بھی وہ ہے کہ پردا کہیں جسے

شرح حقیقت طلب ناتمام ہے
اک دفتر شکایت بے جا کہیں جسے

اس جلوہ گاہ ناز کی اللہ رے دل کشی
حیرانیٔ نظر ہے تماشا کہیں جسے

موقوف ہے خیال پہ احساس کائنات
ہے اک نظارہ خواب کا دنیا کہیں جسے

آئینہ وار وسعت ذوق جنوں کا ہے
ہر ذرہ میری خاک کا صحرا کہیں جسے

دل ہے جبین شوق کے پردے میں سجدہ ریز
اک نقش بندگی ہے سویدا کہیں جسے

شکوؤں میں رنگ شوخیٔ حسن طلب رہے
یوں ہو گلا ستم کا تقاضا کہیں جسے

تاراج شوخیٔ نگہ ناز ہو گیا
وہ دل کہ درد عشق کی دنیا کہیں جسے

ہوتا ہے جزو کل کی حقیقت کا آئنہ
قطروں کا اجتماع ہے دریا کہیں جسے

فرخؔ ملال ہی سے صفائی کا لطف ہے
اک خاص ادا ہے رنجش بے جا کہیں جسے


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).