نقش قدم ہوا ہوں محبت کی راہ کا
نقش قدم ہوا ہوں محبت کی راہ کا
کیا دل کشا مکاں ہے مری سجدہ گاہ کا
گرمی سیں آفتاب قیامت کی کیوں دروں
سایہ ہے مجھ کوں سرو قیامت پناہ کا
ناسور ہو کہ روز قیامت تلک بہے
جس کے جگر میں تیر لگے تجھ نگاہ کا
پیو کا جمال دیکھ ہوا چاک چاک دل
جیوں کہ کتاں پہ عکس پڑے نور ماہ کا
ڈورے نہیں ہیں سرخ تری چشم مست میں
شاید چڑھا ہے خون کسی بے گناہ کا
دل تجھ برہ کی آگ سیں کیونکر نکل سکے
شعلہ سیں کیا چلے گا کہو برگ کاہ کا
سنبل ہے جیوں کہ جلوہ نما جوئبار پر
آنکھوں میں میری عکس دو زلف سیاہ کا
مہتاب رو کے رخ پہ سیہ خط نہیں سراجؔ
جا کر کھلا ہوا ہے مرے دود آہ کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |