نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں

نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں
by آغا اکبرآبادی

نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں
خدا کی یاد آئے کس طرح سے بتوں کے قہر و عتاب میں ہوں

شراب کا شغل ہو رہا ہے بغل میں پاتا ہوں میں کسی کو
میں جاگتا ہوں کہ سو رہا ہوں خیال میں ہوں کہ خواب میں ہوں

نہ چھیڑ اس وقت مجھ کو زاہد نہیں یہ موقع ہے گفتگو کا
سوار جاتا ہے وہ شرابی میں حاضر اس کی رکاب میں ہوں

کبھی شرابی کبھی نمازی کبھی ہوں میں رند گاہ زاہد
خدا کا ڈر ہے بتوں کا کھٹکا عجب طرح کے عذاب میں ہوں

قیامت آنے کا خوف کیسا تردد و فکر کیوں ہے آغاؔ
حساب کیا کوئی مجھ سے لے گا بتا تو میں کس حساب میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse