ننھا غاصب
مرے گھر کی دیوی کے بالائے سینہ
کھلا ہے محبت کا تازہ کنول
درخشندہ جیسے سر شام زہرہ
افق پر سمندر کے آئے نکل
وہ ہاتھوں پہ اپنے کھلاتی ہے اس کو
وہ پیروں پہ اپنے جھلاتی ہے اس کو
وہ رکھتی ہے آنکھوں میں پتلی بنا کے
وہ سوتے میں روتا جو اٹھ بیٹھتا ہے
تو بوسوں سے موتی سے آنسو وہ پونچھے
وہ سو جان سے ہر ادا پر فدا ہے
وہ ہے لال دونوں جہاں جس پہ صدقے
یہ ننھی سی جاں اور غاصب کے دعوے
مرا تخت زریں ہے تیرے حوالے
ترے دست و بازو فرشتوں کے دستے
تو ہے وہ زبردست جیتے پہ جیتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |