ننھا قاصد
ترا ننھا سا قاصد جو ترے خط لے کر آتا تھا
نہ تھا معلوم اسے کس طرح کے پیغام لاتا تھا
سمجھ سکتا نہ تھا وہ خط میں کیسے راز پنہاں ہیں
حروف سادہ میں کس حشر کے انداز پنہاں ہیں
اسے کیا علم ان رنگیں لفافوں میں چھپا کیا ہے
کسی مہوش کا ان کے بھیجنے سے مدعا کیا ہے
مگر مجھ کو خیال آتا تھا اکثر اس زمانے میں
کہ اس کی حیرت طفلی ہے کیوں گم اس فسانے میں
وہ با ایں کم سنی کیا یہ نہ دل میں سوچتا ہوگا
کہ باجی نے ہماری اپنے خط میں کیا لکھا ہوگا
اور آخر وہ اسی کو نامہ لکھ کر بھیجتی کیوں ہیں
کبھی بھیجا تو بھیجا لیکن اکثر بھیجتی کیوں ہیں
وہ پہلے سے زیادہ بھائی کو کیوں پیار کرتی ہیں
لفافہ دے کے لطف خاص کا اظہار کرتی ہیں
پھر ایسے اجنبی پر اس کی باجی مہرباں کیوں ہیں
اگر ہیں بھی تو گھر والوں سے یہ باتیں نہاں کیوں ہیں
اور اس کے شبہے کی اس سے بھی تو تائید ہوتی ہے
چھپا کر خط کو لے جانے کی کیوں تاکید ہوتی ہے؟
یہ نوخیز اجنبی جانے کہاں سے اکثر آتا ہے
جب آتا ہے تو باجی کی طرح خط لکھ کے لاتا ہے
عزیزوں کی طرح یہ کیوں مکاں میں آ نہیں سکتا
جب اس سے پوچھتا ہے وہ اسے سمجھا نہیں سکتا
کھلونے دے کر اس کو مسکرا دیتا ہے وہ اکثر
اور اک ہلکا سا تھپڑ بھی لگا دیتا ہے وہ اکثر
ترے قاصد کے یہ افکار دل کو گدگداتے تھے
اور اپنے بھولپن سے میرے جذبوں کو ہنساتے تھے
نہیں موقوف انہی ایام پر جب بھی خیال آیا
تصور تیرے بعد اس کا بھی نقشہ سامنے لایا
مگر آج اس طرح دیکھا ہے وہ نقش حسیں میں نے
کہ رکھ دی خاک حیرت پر محبت کی جبیں میں نے
وہی ننھا سا قاصد نوجواں ہو کر ملا مجھ کو
زمانے کے تغیر نے پریشاں کر دیا مجھ کو
جنون ابتدائے عشق نے کروٹ سی لی دل میں
پس از مدت یہ لے کے آ گئی پھر اپنے محمل میں
ترے قاصد سے ملتے وقت مجھ کو شرم آتی تھی
مگر اس کی نگاہوں میں شرارت مسکراتی تھی
شرارت کا یہ نظارہ مری حیرت کا ساماں تھا
کہ اس پردہ کے اندر تیرا راز عشق عریاں تھا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |