ننھا قاصد

ننھا قاصد
by اختر شیرانی
299353ننھا قاصداختر شیرانی

ترا ننھا سا قاصد جو ترے خط لے کر آتا تھا
نہ تھا معلوم اسے کس طرح کے پیغام لاتا تھا

سمجھ سکتا نہ تھا وہ خط میں کیسے راز پنہاں ہیں
حروف سادہ میں کس حشر کے انداز پنہاں ہیں

اسے کیا علم ان رنگیں لفافوں میں چھپا کیا ہے
کسی مہوش کا ان کے بھیجنے سے مدعا کیا ہے

مگر مجھ کو خیال آتا تھا اکثر اس زمانے میں
کہ اس کی حیرت طفلی ہے کیوں گم اس فسانے میں

وہ با ایں کم سنی کیا یہ نہ دل میں سوچتا ہوگا
کہ باجی نے ہماری اپنے خط میں کیا لکھا ہوگا

اور آخر وہ اسی کو نامہ لکھ کر بھیجتی کیوں ہیں
کبھی بھیجا تو بھیجا لیکن اکثر بھیجتی کیوں ہیں

وہ پہلے سے زیادہ بھائی کو کیوں پیار کرتی ہیں
لفافہ دے کے لطف خاص کا اظہار کرتی ہیں

پھر ایسے اجنبی پر اس کی باجی مہرباں کیوں ہیں
اگر ہیں بھی تو گھر والوں سے یہ باتیں نہاں کیوں ہیں

اور اس کے شبہے کی اس سے بھی تو تائید ہوتی ہے
چھپا کر خط کو لے جانے کی کیوں تاکید ہوتی ہے؟

یہ نوخیز اجنبی جانے کہاں سے اکثر آتا ہے
جب آتا ہے تو باجی کی طرح خط لکھ کے لاتا ہے

عزیزوں کی طرح یہ کیوں مکاں میں آ نہیں سکتا
جب اس سے پوچھتا ہے وہ اسے سمجھا نہیں سکتا

کھلونے دے کر اس کو مسکرا دیتا ہے وہ اکثر
اور اک ہلکا سا تھپڑ بھی لگا دیتا ہے وہ اکثر

ترے قاصد کے یہ افکار دل کو گدگداتے تھے
اور اپنے بھولپن سے میرے جذبوں کو ہنساتے تھے

نہیں موقوف انہی ایام پر جب بھی خیال آیا
تصور تیرے بعد اس کا بھی نقشہ سامنے لایا

مگر آج اس طرح دیکھا ہے وہ نقش حسیں میں نے
کہ رکھ دی خاک حیرت پر محبت کی جبیں میں نے

وہی ننھا سا قاصد نوجواں ہو کر ملا مجھ کو
زمانے کے تغیر نے پریشاں کر دیا مجھ کو

جنون ابتدائے عشق نے کروٹ سی لی دل میں
پس از مدت یہ لے کے آ گئی پھر اپنے محمل میں

ترے قاصد سے ملتے وقت مجھ کو شرم آتی تھی
مگر اس کی نگاہوں میں شرارت مسکراتی تھی

شرارت کا یہ نظارہ مری حیرت کا ساماں تھا
کہ اس پردہ کے اندر تیرا راز عشق عریاں تھا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.