نواب عاقل خاں پنج ہزاری

نواب عاقل خاں پنج ہزاری
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319501نواب عاقل خاں پنج ہزاریناصر نذیر فراق دہلوی

نواب عاقل خاں صاحب مرحوم کی نسبت عوام الناس نے طرفہ بہتان باندھ رکھے ہیں۔ اور اگر ان سے پوچھئے کہ عاقل خاں ان کا نام تھا یا خطاب، اگر خطاب تھا تو ان کا نام کیا تھا، تو بس یہ کہہ کر چپکے ہوجائیں گے کہ اورنگ زیب کے عہد میں گزرے ہیں۔ اور ہمیں کچھ حال معلوم نہیں۔ جب ان حضرات کی معلومات اتنی سی ہو تو ان کا کہنا بالکل فضول اور لغو سمجھا جائےگا۔ فقیر فراق ان کی مختصر سوانح عمری تواریخ سے لکھتا ہے۔تذکرہ مرات الخیال میں لکھا ہے کہ یہ خواف کے رہنے والے ہیں۔ قوم کے کھرے سید میر عسکری نام ہے اور رازی تخلص ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کی ولی عہدی سے ان کے راز دار اور ان کے مصاحب تھے۔ جملہ علوم و فنون میں انہیں دستگاہ تھی۔ اور اسی فضیلت کی وجہ سے انہیں اورنگ زیب نے پسند کر کے اپنی رفاقت میں لے لیا تھا۔ بظاہر وہ ایک امیر اور پنج ہزاری منصب رکھتے تھے اور یہ رتبہ شاہنشاہ نے انہیں سمجھ کر دیا تھا۔ صاحب تذکرہ لکھتے ہیں کہ حضور والا کو مہم دکن پر گئے ہوئے بارہ سال ہوئے ہیں۔ مگر شاہجہاں آباد کی صوبہ داری انہیں سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس بارہ سال کی مدت میں ان کے انتظام کی خوبی سے دہلی اور نواح دہلی میں کیل کا کھٹکا بھی نہ ہوا۔ خاص و عام سب ان سے خوش ہیں۔ رعایا مگن ہے، اور ان کا دم بھرتی ہے۔شاعری میں یہ استاد زمانہ تھے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ’’گویند اورنگ زیب در ایام شاہزادگی یکے از پرستارانِ خاص کہ از شیوۂ دلبری و نغمہ سنجی بہ سماع مبارک می رسانید رحلت نمودہ مفارقتش بر خاطر آن حضرت نہایت دشوار گردید۔‘‘ یعنی مؤلف تذکرہ لکھتے ہیں کہ شاہزادگی کے زمانہ میں اورنگ زیب کامیلان ایک پرستار کی طرف تھا، جو شیوۂ دلبری کے علاوہ حضرت کو اپنے گانے سے بھی خوش کرتی تھی۔ قضائے آسمانی سے وہ فوت ہوگئی۔ اورنگ زیب کو اس کی جدائی کابڑاصدمہ ہوا۔ ا س کی وفات کے دوسرے روز حضور والا شکار کو تشریف لے گئے اورنواب عاقل خاں کو بھی ہم رکاب کر لیا۔حضور والا جب آبادی سے کئی میل دور جنگل میں پہنچ گئے اور ساتھی ادھر ادھر ہوگئے تو عاقل خاں نے تنہائی پاکر حضور والا کی خدمت میں دست بستہ عرض کی کہ اس پریشانی اور رنج و ملال میں حضور والا نے شکار کی تکلیف کس حکمت سے گوارا کی۔ حضور والا نے اس سوال کے جواب میں یہ شعر پڑھا،نالہائے خانگی دل را تسلی بخش نیستدر بیاباں می تواں فریاد خاطر خواہ کردعاقل خاں نے عرض کی، بجا ارشاد ہوا، اور یہ شعر پڑھا،عشق چہ آساں نمود آہ چہ دشوار بودہر چہ دشوار بود یارچہ آساں گرفتاس شعر کو سن کر حضور والا کا دل بھر آیا، اور آپ کو دیر تک رقت ہوتی رہی۔ جب جی ٹھہر گیا تو پوچھا یہ کس کا شعر ہے؟ کہنے والے نے معاملہ باندھ دیا ہے اور خوب کہا ہے۔ عاقل خاں نے ہاتھ جوڑ کر کہا، جس شخص کا یہ شعر ہے اس کی یہ تاب و طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے تئیں حضور والا کے روبرو شاعر کہے اور اپنا نام ظاہر کرے۔ حضور والا کو معلوم ہوگیا کہ یہ شعر انہیں کا ہے تو انہیں بہت داد دی، اور کئی بار پڑھواکر سنا۔ اور اسے یاد کرلیا۔ اور اسی روز سے نظر التفات بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ پنج ہزاری کا مرتبہ عنایت فرمایا اور شاہجہاں آباد کا صوبہ دار بنایا۔ میں یہاں عاقل خاں صاحب کی ایک غزل نقل کرتا ہوں تاکہ آپ اسے پڑھ کر معلوم فرمائیں کہ عاقل خاں کس رتبہ کے شاعر ہیں،غزلابتدا عشق و انتہا عشق استدرمیان نیز خود نما عشق استجز خدا ہیچ کس نمی داندیا خدا عشق یا خدا عشق استدر رہ عشق راہ از عشق ستراہ زن عشق و رہنما عشق استگفتگوئیست عاشق و معشوقہمہ عشق ست عشق را عشق استعقل گوید کہ دلربا حسن ستحسن گوید کہ دلربا عشق استمی نماید فثم وجہ اللہعشق بیجا و جا بجا عشق استلیس فی الدار غیراو د­یارہم درین ہم دران سرا عشق ستخون منصور بعد قتل نوشتزندہ و مردہ کار با عشق سترازی از راز عشق گوئے چونےنغمہ پرواز این نوا عشق استاس غزل کے رنگ سے کھلتا ہے کہ نواب صاحب صوفی صافی ہیں اور وحدت الوجود میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مگر تذکروں سے یہ نہیں کھلتا کہ کس کامل کے مرید تھے اور کس سلسلہ میں۔ قرینہ کہتا ہے کہ خواجگان چشت اہل بہشت سے واسطہ رکھتے ہیں۔ میرے مکرم نواب خواجہ مصلح الدین خاں صاحب ہمدانی دہلوی نے مجھے ان کی ایک تصنیف دکھائی، جس کا نام نغمات الرازی ہے۔ یہ تصوف میں فارسی زبان کی ایک کتاب ہے جو عرفان اور ایقان سے لبریز ہے۔ انداز تحریر مولانا نخشبی کے سلک السلوک سے ملتا جلتا ہے۔ عبارت اور عبارت میں مضامین بہت دلکش اور دل پسند ہیں۔ ہر مضمون کی سرخی کو نغمہ نغمہ کر کے لکھتے ہیں اور نغمہ کو ذوق و شوق کے پردوں سے اوراسرار کے تاروں سے روح پرور کرتے ہیں، جن کے پڑھنے سے وجد ہونے لگتا ہے۔ جو کتاب کی اصل عبارت مزدہ دیتی ہے، اس کی لطافت ترجمہ میں باقی نہیں رہتی ہے۔ تاہم دوستوں کی ضیافت طبع کے لئے نغمات الرازی میں سے ایک ترجمہ پیش کرتا ہوں،نغمہ وجدیہاے عاشق اہتزار سماع لذت استماع سے ہے اور مسموع سے استماع ہے، یعنی جب مطرب عشق ساقی بنتا ہے اور بادۂ بے رنگ و بو خم خانہ معانی سے نکلتا ہے اور مینائے حرف و صوت میں ڈالتا ہے اورکانوں کے پیالہ سے دل میں پہنچاتا ہے اور سننے والوں کو مست بناتا ہے اور انہیں زمین آسمان جھنکاتا ہے اور وجد میں لاتا ہے۔ یہ لوگ اگر امید قرب کی بشارت پاتے ہیں تو خوشی کے کے مارے ان کی پیشوائی کے لئے اپنے سے گزر جاتے ہیں اور اگر دوری کا اشارہ پاتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں اور اگر وصال کا مژدہ سنتے ہیں تو شراب ناب کی طرح جوش مارتے ہیں۔ اگر جدائی کا راگ ہے تو سوکھ جاتے ہیں اورنے کی طرح نیستان کی یاد میں شور کرتے ہیں اور اگر بلاوہ کی خبر پاتے ہیں تو مستوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ جاتے ہیں۔اگر نکال لینے کا حکم سنتے ہیں تو مخموروں کی طرح فرش زمین ہوجاتے ہیں۔ اگر قبض ہوتا ہے تو غنچہ ساں خون جگر کھاتے ہیں اور گریبان چاک کرتے ہیں اور اگر بسط ہوتا ہے تو پھول کے رنگ میں کھل جاتے ہیں۔ اور اگر وعید کا ترانہ ہے تو دل کی آگ سے سلگ اٹھتے ہیں اورجان دے دیتے ہیں، اگر وعدہ ہے تو انتطار کرتے ہیں اوراپنے تئیں تسکین دیتے ہیں۔ اور شرارۂ محبت چونکہ عاشق کی دل کی بھٹی میں دبا رہتا ہے اور قوال کی نغمہ سرائی سے وہ روشن ہوجاتا ہے، اس لیے کہ اضطراب اور حرکت شعلہ کی صفت لازمی ہے۔ سماع کی حالت میں تسکین محال ہے۔ اے صوفی جب سماع کی تاثیر سے تیرے ضمیر کی آگ بھڑک اٹھے اور نہ بجھے تو اس وقت تیرے لیے یہی علاج ہے کہ تجرید اور تفرید کے دونوں قدم تو زمین پر رکھے اور دل کو اندیشہ اور وسوسہ سے خلع نعلین کی طرح سے خالی کرے اور عرصۂ سماع میں روح مجرد بن کر آئے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔ فاخلع نعلیک بالوادی مقدس طویٰ۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.