نورجہاں
ہر جلوہ جہانگیر تھا جس وقت جواں تھی
کہتے ہیں جسے نورجہاں نور جہاں تھی
تھا حور کا ٹکڑا بت طناز کا مکھڑا
اک شمع تھی فانوس میں جو نور فشاں تھی
انداز میں شوخی میں کرشمہ میں ادا میں
تلوار تھی برچھی تھی کٹاری تھی سناں تھی
رخسار جہاں تاب کی پڑتی تھیں شعاعیں
یا حسن کے دریا سے کوئی موج رواں تھی
بجلی تھی چمکتی ہوئی دامان شفق میں
یا موج تبسم تھی لبوں میں جو نہاں تھی
گلزار معانی کی چہکتی ہوئی بلبل
شاعر تھی سخن سنج تھی اعجاز بیاں تھی
بیتاب ہوا جاتا ہے دل ذکر سے اس کے
کیا پوچھتے ہو کون تھی وہ اور کہاں تھی
دنیائے تدبر میں تھی یکتائے زمانہ
ہاتھ اس کے تھے اور ان میں حکومت کی عناں تھی
دستور عدالت کے لئے اس کا قلم تھا
فرمان رعایا کے لئے اس کی زباں تھی
وہ شمع شب افروز تھی پروانہ جہانگیر
یہ بات بھی دونوں کی محبت سے عیاں تھی
لاہور میں دیکھا اسے مدفوں تہ مرقد
گرد کف پا جس کی کبھی کاہکشاں تھی
پیوند زمیں ہو گئے اب کون بتائے
کیفیؔ یہ جہانگیر تھا وہ نورجہاں تھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |