نکاح ثانی

نکاح ثانی
by سجاد حیدر یلدرم
277936نکاح ثانیسجاد حیدر یلدرم

گھڑی، گھر رر، گھر رر کرکے بجی، دونوں نے ایک ساتھ نظریں اٹھائیں۔ نوجوان عورت انگیٹھی کے سامنے بیٹھی ایک خط پڑھ رہی تھی چھوٹی لڑکی، گڑیا کو بائیں ہاتھ میں لیے اور دائیں ہاتھ کی انگلی اردو کی پہلی کتاب کی ایک سطر پر رکھے، گڑیا کو وہ سبق جو خود اس نے آج پڑھا تھا۔ پڑھا رہی تھی، ’’کتا بھونکتا ہے۔۔۔ بلی میاؤں میاؤں کرتی ہے۔۔۔ اونٹ بلبلاتا ہے۔۔۔‘‘ دونوں کی آنکھیں ایک دم اٹھیں اور گھڑی پر پڑیں۔ نوجواب عورت نے اپنے دل میں کہا، ’’ لو، نو بج گئے۔‘‘ لڑکی نے گھڑی پر سے ماں کے چہرے پر نظر ڈالی اور بات کے لیے بہانہ ڈھونڈھ کے کہنے لگی، ’’اماں جان، گھڑی نو دفعہ بجی نا؟‘‘

ماں نے منہ سے کچھ نہ کہہ کے، مگر ذرا سر ہلاکے، گویا ’’ہاں‘‘ کہا، بچی نے تھوڑے تردد کے بعد پھر پوچھا، ’’ابا جان کا انتظار کب تک کریں گے؟‘‘ مان نے اس کا جواب بھی کچھ نہ دیا۔

ہاں انتظار کریں گے، یوں ہی انتظار کریں گے۔ عورت نے کاغذ کو پھر اٹھایا۔ آہ! اگر اب بھی آئے اور نگاہ محبت سے اسے دیکھے تو وہ، اس گمنام بے دستخط کے کاغذ کو پھاڑ ڈالے گی، ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گی اور بالکل ضائع کردینے کے لیے انگیٹھی میں ڈال کے راکھ کردے گی، اس پر یقین نہ کرے گی، اپنے شوہر کی بے وفائی کی اطلاع دینے والے کاغذ پر ذرا سا بھی یقین نہ کرے گی۔

’’یا اللہ! کیا یہ ممکن ہے؟ تو یوں کہیے، یہ جو ہر دوسرے تیسرے رات رات بھر غائب ہوجایا کرتے ہیں، یہ سب بے وفائی کا نتیجہ ہے یہ سب کسی بیسوا کو دل دینے کا باعث ہے۔ یہ جو کہا جایا کرتا تھا کہ آج کچہری کے فلاں دوست کے ہاں دعوت ہے شاید رات کو نہ آسکوں، آج کمپنی باغ میں بینڈ سنتا رہا، اس لیے دیر ہوگئی۔ آج فلاں جگہ جلسہ تھا، اس لیے جلد نہ آسکا، یہ سب عذر جنھیں وہ یقین تو کیا کرتی تھی، مگر دھڑکتے ہوئے دل سے کہیں جھوٹ نہ ہوں، یہ سب عذر جھوٹ ہی تھے اور صر ف یہ کاغذ یہ ناپاک عبارت جو اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی ہنسی اڑاتی معلوم ہوتی ہے، صحیح ہے۔‘‘

یہ کاغذ! وہ تو اس کا نام، اس کا کوٹھا اور تمام تفصیلات تک بتاتا ہے۔ کہتا ہے، ’’اگر چاہو تحقیق کرلو‘‘ یعنی بالکل صحیح ہے؟ انکار کی مجال نہیں، اس کےجھوٹ ہونے کا احتمال نہیں؟ یہ خیال اسے گویا شکنجہ میں دبا دبا کر پیسے ڈالتا ہے۔

اور اس وقت، ایک منٹ میں گزشتہ واقعات۔ ماضی کے شیریں پردے کو ہٹاکے ایک دم اس کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ وہ باتیں، وہ عذر جو اس نے اپنے شوہر کی زبان سے سنے تھے اور مان لیے تھے، وہ گراں واقعات جنھیں اس نے تحمل کیا تھا اور بھول گئی تھی، وہ لڑائیاں جو نہ معلوم کیوں اس میں ہوئی تھیں، باوجود یکہ خود اس نے کبھی اپنے شوہر سے لڑنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، وہ تحقیریں اور چھوٹی چھوٹی اہانتیں جو اس کی کی جاتی تھیں اور جنھیں وہ معاف کرچکی تھی اور بھول چکی تھی، یہ سب پردہ ماضی سے نکل کر قطار در قطار سامنے آکھڑی ہوئیں، اور اپنے اصلی رنگ میں اس رنگ میں جن میں انھیں بھولنا، معاف کردینا، برداشت کرنا ممکن نہ تھا اپنے تئیں ظاہر کرنے لگیں۔

اور اس وقت وہ ان کے عذاب سے تنگ آکر اور اس کے جگر میں اختلاج پیدا ہورہا تھا، اس سے مغلوب ہوکر اپنے ہاتھوں کو مل رہی ہے، جسم تھرا رہا ہے۔ اپنی انگلیوں کو اس طرح اینٹھ رہی ہے گویا توڑ ڈالے گی، ہاتھوں کو اس طرح بڑھاتی ہے، گویا اپنے کندھوں سے اکھاڑ دینا چاہتی ہے۔

چلانے کے لیے، رونے کے لیے اس کو بہت بڑی ضرورت محسوس ہوتی تھی، لیکن اس کاغذ پر یقین کرنا نہیں چاہتی تھی، یقین نہ کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اب اس نے اپنی نگاہیں اس کاغذ پر سے اٹھاکر، دیوار پر ڈالیں، جہاں کچھ اونچے پرسایہ میں شوہر کی تصویر لگی ہوئی تھی، گویا اس چہرے میں اس اہانت، اس بے وفائی کے جھوٹ ہونے کی علامتیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اور اس وقت چند منٹ میں اپنی بیاہی زندگی کو پھر دوبارہ بسر کرگئی۔ اس کی بیاہی زندگی کے مرقعے اس طرح گزر گئے جس طرح کسی منبع سے مختلف رنگ کی روشنیاں کسی چیز پر یکے بعد دیگرے پڑیں۔ ان مرقعوں میں وہ چہرہ جو اس کے مقابل تصویر میں ہنس رہا تھا ہمیشہ ہوتا تھا۔

وہ پہلی رات، وہ اس رات تو اسے چاہتا تھا، وہ رات جب کہ وہ تمام حسیات قلبی کے ساتھ اس سے کانپ کانپ کر باتیں کررہا تھا اور وہ مارے شرم کے پریشان و لرزاں تھی اور اس کے چہرے کو نہ دیکھتی تھی۔ اس رات بلا شبہ وہ اسے چاہتا تھا، ہاں صرف اسے چاہتا تھا۔

یہ بیچاری لڑکی، اس رات، اسے کنکھیوں سے دیکھ دیکھ کے اس کی باتیں سن سن کے تہ دل سے یقین کررہی تھی کہ یہ منور و مسعود رات شب عشق ہوکر، لیل وصال بن کر ہمیشہ قائم رہے گی، تا ابد ختم نہ ہوگی۔

اس کے بعد مرقع کا ایک اور صفحہ پیش نظر ہوا، ایک دن صبح کا وقت تھا وہ سوتے سوتے یکایک جاگی۔ کیا دیکھتی ہے کہ وہ خواب سے بیدار ہے، اس کے قریب بیٹھا ہے اور ایک الفت پاش مفتونیت سے آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑے ہوئے ہے۔ وہ سونے میں اس طرح دیکھے جانے سے لجائی۔ اور اپنی گھبراہٹ اور شرم کو چھپا نہ سکی کہ اتنے میں اس نے اس کے منہ کو جو حیرت سے کھل گیا تھا، ایک لمبے بوسے سے بند کردیا۔ آہ یہ بوسے! لیکن اس وقت تو زندگی بوسوں ہی میں گزرتی تھی۔ اس زمانے میں تو وہ یہ خیال کرتی تھی کہ زندگی، ایک دائمی بوسہ عشق ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن ان بوسوں کے درمیان اس نے زہر کا ایک گھونٹ چکھا، کوئی سبب نہ تھا، کوئی وجہ بظاہر معلوم نہیں ہوتی تھی، کہ ایک دن اسے ان عشق کے بوسوں میں چھپی ہوئی ایک کھٹک محسوس ہوئی، جس نے اس کے قلب، اس کی روح تک جاکر ایک ضرب لگائی۔

بس اس وقت، اس سیکنڈ سے اسے ایک مبہم، غیر معنی ڈرنے ستانا شروع کردیا، لیکن اگریہ غیر معنی خوف، غیر معنی ہی رہتا تو وہ ایک پر لطف خواب کی بے معنی گھبراہٹ پر حمل کرکے اپنے دل کو دھوکا دے دے کر خوش رہتی، مگر یہ بھی نہ ہوا۔

ایک دن، اتوار کا دن تھا، وہ گھر سے نکلتے وقت اس کی طرف نہ دیکھ کے یہ کہتا ہوا کہ’’شاید میں آج دیر سے آؤں‘‘ جانا چاہتا تھا اس وقت بھی اس کی نظروں میں وہ وقت اور موقع پھر رہا ہے، جب اس نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ اور اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملانا چاہیں تو اس نے جھوٹ بولنے والوں کی مخصوص پریشانی کے ساتھ اپنی چھتری کو لپیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’آج اتوار کا دن ہے شاید دوستوں کے ساتھ سیر وغیرہ میں دیر ہوجائے۔‘‘ پہلا جھوٹ! اس پہلے جھوٹ پر یقین نہ کرنے کے لیے اس نے تمام رات کوشش کی تھی، تمام رات اپنی طبیعت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی تھی کہ یہ عذر جھوٹ نہ تھا اور اس کوشش میں اس کی واپسی کے وقت تک آنکھ بھی نہیں چھپکائی تھی۔ آخر وہ واپس آیا، اس واپسی کے وقت وہ اس کی زبان سے ایک کلمہ تسلی، ایک حروف اعتذار سننے کی امید رکھتی تھی۔

’’تم اب تک سوئی نہیں؟‘‘

’’نہیں، تمھارا انتظار کررہی تھی۔‘‘

اس جواب پر اگر وہ ایک حرف ہی کہتا، ایک حرف محبت۔ تو اپنے اضطرابات کو وہ فوراً بھول جاتی، مگر اس نے کچھ بھی نہ کہا، رات کے کپڑے جلد جلد پہن کے، پلنگ پر لیٹتے وقت اس نے اس کا بوسہ لیا تو مگر اس بوسہ میں ایک اجتناب، ایک رکاوٹ ملی ہوئی تھی۔ پلنگ پر اس طرح گر پڑا گویا تھکن کے مارے اس کا تمام جسم ٹوٹ گیا اور یہ کہہ کے ’’آؤ سو رہیں’’ فوراً آنکھیں بند کرلیں اور سونے لگا۔ اس رات، رضائی میں منہ چھپاکے کہ کہیں وہ نہ سن لے، وہ رات بھر چپکے چپکے رویا کی رویا کی۔

اس کے بعد وہ بات بات پر اس کا دل بھر آیا کرتا تھا اور اس کا خاوند بھی اسے روتا دیکھتا تھا اور اس کے رونے پر اپنی وحشت اور گھبراہٹ ظاہر کرتا تھا۔ اتنے اخلاق کا بھی استعمال نہ کرتا تھا کہ اس وحشت کو چھپانے کی کوشش کرتا۔ کبھی بلی کی طرح جو اپنے جسم کو آکر اپنے مالک سے سہلاتی ہے، لیکن ذرا سی تکلیف پر پنجہ مارنے کے لیے تیار رہتی ہے، وہ اس سے کہتا۔ ’’دیکھو روؤو مت، میری جان پہلے کی طرح مجھے چاہتی ہونا؟ آنکھیں پونچھ ڈالو، ذرا آنکھوں سے آنکھیں تو ملاؤ، جان ذرا ہنس تو دو‘‘ پھر ذرا سی دیر میں بلی کی طرح نرم پنجوں میں سے تیز ناخون نکالتا، یعنی کہتا۔ ’’بس بس رونا بہت ہوگیا، اس بسورنے کو بند کرو، گھر کیا ہے امام باڑہ ہے، تم مجھے بالکل گھر سے نکال دو گی۔‘‘ یہ باتیں کب سنتی تھی، جب کوارپن، بالپن کو پیچھے چھوڑے ہوئے صرف چھ ہی مہینے ہوئے تھے، چھ مہینے میں اس بیچاری عورت جوان عورت کو رونے کے لیے کس قدر کافی وقت مل گیا تھا، نہ صرف یہ بلکہ شوہر کو اس سے سیر ہونے اور ان کلمات کے کہنے کا بھی وقت مل گیا تھا۔

ہائے وہ امیدیں! وہ کس طرح منقطع ہوگئیں۔ رہا سہا رشتہ قلب اس کے اس آخری فقرے نے ’’تم بالکل گھر سے نکال دوگی۔‘‘ توڑ دیا، تو گویا وہ پہلے ہی اپنے تئیں گھر سے نکلا ہوا سمجھتا ہے، کہ یہ رونا ’’بالکل‘‘ گھر سے نکال دیگا۔ اس کے بعد اس نے اس کے سامنے طبیعت کو روکنا شروع کیا، کبھی کبھی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آتے لیکن وہ نہایت کوشش کرکے پلکوں کو دباکے ان آنسوؤں کو نکلنے نہ دیتی، ایک دن وہ اس کے سامنے بھی طبیعت کو نہ روک سکی، وہ، وہ دن تھا کہ اس نے اسے خبر دی تھی کہ وہ اس سب سے اعلیٰ ہدیہ کو جو عورت اپنے خاوند کو پیش کرسکتی ہے، اٹھائے ہوئے ہے اور کچھ دنوں میں پیش کرے گی۔ اس خبر کو دیتے وقت وہ سمجھتی تھی کہ مارے خوشی کے اچھل پڑے گا، اس کے گلے سے لپٹ جائیگا مگر وہ پتھر کی مورت کی طرح وہیں کا وہیں رہ گیا، متحیر آنکھوں سے یوں دیکھنے لگا، گویا سمجھا نہیں، پھر کہنے لگا۔ ’’مگر بہت جلد‘‘ باپ بننے کی خوشی بختی کی خبر پر پہلا کلمہ جو اس کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا۔ حالانکہ قلباً اس کا خاوند برا آدمی نہ تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ برا آدمی نہیں ہے، سخت دل نہیں ہے، پھر اس قسم کے فقرے کیوں کہے جاتے ہیں؟ کیوں اسے رلایا جاتا ہے، کیا ان کے درمیان کوئی راز ہے، کوئی غلط فہمی ہے؟

’’بہت جلد!‘‘ اس طعن پر وہ اپنی طبیعت کو نہ روک سکی اور رو پڑی، اس خیال سے معذب ہوکر رو پڑی کہ لو اب تک میں اپنے تئیں اس سے نہ چہوا سکی۔ لیکن اس رات وہ اس رونے پر غصہ نہ ہوا، بلکہ اپنے فقرے کے اثر کو گھٹانے کی کوشش کرتا رہا۔

’’میں تو مذاق کرتا تھا، تم اسے سچ ہی سمجھ گئیں، کہیں مذاق سے بھی انسان اس قدر متاثر ہوا کرتا ہے، واہ وا واہ! علاوہ ازیں میں نے جو کہا، تمھارا ہی خیال کرکے کہا، ذرا سوچو تو، اگر لڑکی پیدا ہوئی تو دس پندرہ برس کے بعد تم اور وہ دو بہنیں معلوم ہونگی؟ اور یہ کہہ کہہ کے اور اس کی انگلیوں میں انگلیاں ڈال کے اور بالوں کو چوم چوم کے وہ گویا اس سے معافی مانگتا تھا، اس نے اسے معاف کردیا، وہ ہمیشہ ہی معاف کردیا کرتی تھی۔ ہمیشہ ان شکر رنجیوں کو جو اس غیر معنی شے، اس راز اس غلط فہمی سے پیدا ہوا کرتی تھیں، وہ معاف کردیا کرتی تھی۔

لڑکی پیدا ہوئی اور اس واقعہ نے ایک بڑی تبدیلی کردی اس نے اپنے خاوند کو زچگی کے پلنگ کے سرہانے روتا ہوا دیکھا یہ اپنی پھچلی حرکات پر ندامت کا رونا تھا۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ اس نے خاوند کو روتے ہوئے دیکھا، یہ آنسو گویا اس بیچاری کےسال بھر کے اضطراب کو دھو رہے تھے، مٹا رہے تھے۔

اس کے بعد اس کے خیال میں اچھی گزری یا شاید یہ ہو کہ سال بھر تک جن باتوں کی وہ عادی نہ ہوئی تھی، اب ان کی عادت پڑگئی تھی اور اس لیے اب دوستوں کی دعوتیں، سیر میں بہت دیر ہوجانا، اس کی توجہ کو اپنی طرف مائل نہ کرتے تھے، یہاں تک کہ دعوتوں اور تاخیر سیر میں آہستہ آہستہ تو اتر پیدا ہونے لگا، پھر بھی اس کے دل میں کچھ شبہ پیدا نہ ہوا۔

اف! آخر کار وہ عظیم واقعہ! جس کا خیال اس کی آنکھوں کے سامنے، اس کے غضب ناک چہرے اور آتش فشاں اور جگر سوز نظروں کی تصویر لاکے کھڑا کردیتا ہے اور یہ غضب اور یہ آتش فشانی کس لیے ہوئی تھی؟ محض ایک چھوٹی سی بات پر، مگر لڑائی کے لیے ایک بہانہ تھا، اور اس وقت وہ پاگلوں کی طرح ہذیان بکنے لگا تھا۔

جوان عورت، اس واقعہ کو یاد کرتے وقت خیال میں بھی پورا نہیں کرتی، اس کا غرور نسوانی، اس واقعہ کا خیال آتے ہی اسے پر قہر کردیتا ہے اور اس لیے کہ وہ مارے غصے کےکانپنے نہ لگے وہ اس واقعہ کو یاد کو یوں ہی ادھوڑا چھوڑ دیتی ہے۔

یہ وہ واقعہ تھا کہ اس پر اس نے بھی کھلم کھلا اپنے خاوند سے اعلان جنگ کردیا تھا اور اس کی ناسزا باتوں کا نا سزا باتوں سے جواب دیا تھا۔ یہ لڑائی برسوں رہی۔

اس زمانے میں ایسے ایسے دن بھی آتے تھے کہ کئی کئی دن تک گھر نہ آتا تھا، ایسی راتیں بھی آئی تھیں کہ وہ دونوں ایک بستر میں آرام کرتے تھے۔ مگر دو دشمنوں کی صفت سے لیٹے ہوتے تھے۔ دونوں منہ پھلائے ہوئے۔ دونوں ایک دوسرے سے منہ پھیرے ہوئے، دونوں میں بات چیت بند۔ غرض کہ اس زمانے میں دونوں دشمن تھے، لیکن پھر بھی نوجوان عورت اسے اچھی طرح جانتی تھی کہ جس زمانے میں وہ اس کی سخت دشمن تھی اسی زمانے میں اس کی محبت دل میں بیٹھی ہوئی تھی اور اس سے بھی واقف تھی کہ گووہ اس زمانے میں اس کی تحقیر کرتا تھا اسے ستاتا تھا تاہم وہ اسے چاہتا تھا، اس کی اسیر محبت تھا۔۔۔

جب کیفیت یہ تھی تو یہ زبون زندگی کیوں، کیوں دونوں کس طرح خوش خوش زندگی بسر نہ کرسکتے تھے؟ کیوں ان میں یہ کشش، یہ لڑائی رہتی تھی؟ وہ اس سے نفرت کرنے کی کوشش کرتی اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ بالعکس وہ اپنے تئیں اس کی طرف مائل پاتی تھی۔ اگر وہ یہ مان لیتی کہ یہ آدمی برا ہے تو غالباً وہ اس سے نفرت کرسکتی، اگر وہ حقیقتاً برے دل کا آدمی تھا تو ہر لڑائی ہر شکر رنجی کے بعد ندامت کے ساتھ آنا اور اپنے ہاتھوں میں اس کا منہ لے کے چومنا اور بغل کو گدگداکے ہنسانے کی کوشش کرنا اور ہر طریقے سے صلح کرنے کی ترکیبیں کرنا کیا معنی رکھتا تھا۔

اس بڑی لڑائی کے بعد جو اتنی مدت تک رہی، لڑکی کے چیچک نکلنے پر بھی یہ ہی ہوا تھا نا؟ بچی کے بخار اترنے اور دانے جھڑنے پر جو گھر میں ایک بڑے اندیشہ سے نجات پانے پر خوشی پھیلی ہوئی تھی، اس خوشی نے شوہر کو آخر کار اپنی بیوی کے آغوش میں گر کر معافی مانگنے پر مجبور نہ کیا تھا؟

اگر وہ اچھا آدمی نہ ہوتا تو بھلا یہ ہوسکتا تھا؟ اس کی یگانہ تسلی اس کے شوہر کی یہ صفت تھی، چھ برس سے برے دنوں کو، لڑائی کے دنوں کو، بھلا دینے والی صرف یہ صفت تھی۔ وہ کبھی یہ گمان نہ کرتی تھی کہ ان واقعات کے ساتھ ان واقعات کے باوجود بھی بے وفائی ہوسکتی ہے۔

ہاں اس نے کبھی اسے سوچا بھی نہ تھا، یا یہ کہنا چاہیے کہ سوچنا چاہا بھی نہ تھا، اسے بے وفائی سے پاک، معرا دیکھنے کی آرزو اس قدر شدید تھی کہ بے وفائی کے شبہ دلانے والی چیزوں کو بھی خاص کوشش کرکے ذہن سے نکال دیا کرتی تھی۔

اب نوجوان عورت غور سے دیکھنے کے لیے آنکھوں کو کھول کے دیوار پر سایہ میں لٹکی ہوئی تصویر کو دیکھتی ہے اور ایک نا امیدی کے لہجے میں کہتی ہے، آہ! یہ امید بھی جھوٹی امید نکلی۔

اس کی پریشان آنکھیں تصویر کو دیکھ دیکھ کر اس پر مواخذہ سوال کو ’’تو تو بے وفا ہے؟‘‘ کہہ رہی تھیں، کاغذ گھٹنوں پر سے فرش پر گر پڑا تھا۔

بچی نے اس سے مطمئن ہوکر کہ گڑیا نے خوب اچھی طرح سبق یاد کرلیا، اپنے ننھے بازو پر سر رکھ کے، گویا بڑے فرض سے فارغ ہوکر آرام سے سونا شروع کردیا، گھڑی پھر ایک بڑی گھر گھراہٹ کے ساتھ بجی۔ دس بجے۔

اب بھی نہیں آئیگا؟ مگر اب، ہاں اس دفعہ، وہ نہ آنے کا سبب جانتی تھی۔ راتوں کو جو بیٹھ کے گھڑیوں انتظار کیا کرتی تھی اور دوستوں کی صحبت میں دیر ہوجانے کا خیال کرکے اپنے دل کو دھوکا دیا کرتی تھی، آج کی رات اپنے دل کو اس دھوکا دینے، اس طرح تسلی دینے کا موقع نہیں۔ اس جھوٹی تسلی کو بھی، ایک کاغذ کے ٹکڑے نے آکر اس سے چھین لیا۔

سڑک پر سے اک گاڑی کے گزرنے نے گھر کی کھڑکیوں کو ہلا دیا۔ بیچاری عورت نے بڑی امید سے جھلملی میں سے سڑک پر نظر ڈالی، شاید اس گاڑی میں وہ ہو مگر کوچوان نے گھوڑوں کو قمچی ماری اور گاڑی تیزی کے ساتھ گزری چلی گئی۔

اس وقت عورت نا امیدی اور عصبی غصے سے کانپنے لگی۔ کاغذ کو زمین سے اٹھاکر جیب میں رکھ لیا اور سوتی بچی کی کلائی پکڑ کر کہنا شروع کیا۔ ’’نہیں آئیں گے، تمھارے ابا جان اب بھی نہیں آئیں گے۔‘‘ لڑکی نے آنکھ کھول کر حیرت سے ماں کا منہ تکنا شروع کیا، دیکھا کہ چہرہ اس قدر پریشان ہے، آنکھیں اس قدر جل رہی ہیں کہ وہ ڈر گئی۔ ادھر کلائی کے دبنے سے، اور اس کے چھڑانے کی کوشش کرنے سے اس کے ہونٹ بگڑ گئے۔ آخر اپنی ماں کی حالت اور کلائی کے دبنے کی تکلیف سے وحشت زدہ ہوکر، اس نے رونا شروع کردیا۔ اس وقت، نوجوان عورت بھی ان آنسوؤں کو جنھیں وہ گھنٹوں سے روکے ہوئے تھی نہ روک سکی اور بچی کو گود میں لے کر ااور اپنے سینے سے بھینچ کر اس سے بھی سیل اشک جاری کردیا، اور اس طرح ماں اور بیٹی مل مل کر، ماں سب جانے ہوئے، بیٹی نہ جانے ہوئے، اپنے شوہر اور باپ کی غیبوبیت پر رو رہی تھیں۔

یہ پہلی رات نہ تھی کہ وہ اکیلی تھی۔ لیکن اور راتوں کو ایک فراغت نفس کے ساتھ اس تنہائی کو کاٹ دیتی تھی کیوں کہ اپنے دل کو اس خیال سے تسلی دیا کرتی تھی کہ باوجود چڑچڑے مزاج ہونے کے وہ میرا مفتون، میرا دلبند ہے اور اب بھی آئے گا تو میرا مفتون، میرا عاشق ہوکر واپس آئیگا، لیکن آج وہ تسلی کہاں۔ آج اس تسلی کو اس کاغذ کے ٹکڑے نے کس بے رحمی کے ساتھ پاؤں تلے روند دیا۔ لڑکی کی ہچکی بند ھ گئی، تو اسے ہوش آیا اور اس نے اپنی طبیعت کو یکسو کرکے، لڑکی کو تھپکا تھپکا کے سلانا چاہا، لڑکی سوگئی اور اس کے دماغ میں اس کاغذ کے واقعات نے پھر آکر جمع ہونا شروع کردیا۔ اب ایک عزم متین کے ساتھ وہ ایک کام کرنا چاہتی تھی، اس خوفناک حقیقت کے کھلنے کے بعد فوق البشر کوشش سے وہ ایک علاج ڈھونڈھنا چاہتی تھی جو اس قسم کی زندگی سے جسے بسر کرنا ممکن نہ تھا، اسے رہائی دے اور پھر اس کی پہلی پر لطف، پر محبت زندگی واپس دے دے اور یہ کام اس ضعف نسوانی کے ذریعے سے کرنا چاہتی تھی جو اب تک ہمیشہ زبون اب تک ہمیشہ مغلوب ہی رہا تھا۔

اس بات کا اسے پورا یقین تھا کہ اس کے دل میں اک مایہ بخابت ہے۔ وہ اسے بھی جانتی تھی کہ کل ماضی مع اس خوف ناک حقیقت کے ایک دھبہ ہے جو دھل سکتا ہے، محو ہوسکتا ہے اور بیچاری دھوکے کے کھائی ہوئی عورت چاہتی تھی کہ اس خوفناک واقعہ کو بھی عفو کردے، جیسا وہ اور واقعوں کو عفو کرچکی تھی، لیکن اسے بھول جانے کے لیے یہ ضرور تھا کہ شوہر تماماً اس کا صرف اس کا ہوجائے۔

اس لڑکی کو تھپکاتے وقت کہہ رہی تھی۔ ’’آہ! وہ عورت، تو یوں کہنا چاہیے کہ میرا خاوند مجھ سے زیادہ اس سے متعلق ہے‘‘ اس کا حوصلہ اسے قبول نہ کرتا تھا، وہ گزشتہ چھ برس کی زندگی، جو باوجود اپنی تمام مصیبتوں کے آج کی رات کے مقابلہ میں گویا پرراحت زندگی تھی۔ اس کل زندگی میں وہ عورت شریک تھی۔ اس زندگی کا ایک حصہ، شاید بہتر حصہ، یقیناً بہتر حصہ، ایک بیسوا کے نصیب ہوا۔

وہ پیار جو اس کے لیے ہونا چاہیے تھا، مگر نہیں ہوا، وہ بوسے جو اسے ملنے چاہیے تھے مگر نہیں ملے، وہ اس دوسری کو دیے گئے۔ ہاں ہاں وہ جو ایک دن ان بوسوں میں، ان بوسوں کےدرمیان، اس نے ایک زہر کا گھونٹ چکھا تھا وہ اس بیسوا کے ناپاک منہ کا بچا ہوا ایک قطرہ تھا۔ یہ خیال کرتے وقت اسے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا خود بھی ناپاک ہوگئی اور خود اپنے سے اسے نفرت ہونے لگی۔ اس آدمی نے اس شوہر نے کیا کیا نہ کیا؟ اس کے بستر سے نکل کے اس کے بستر میں آنا، ان ہونٹوں سے جو اس کے منہ چومنے سے تراور ناپاک تھے اس کا ایک بوسہ لے کر، گویا ایک بوسہ صدقہ کرکے، اس کا منہ ناپاک کرنا، اس کی رائحہ حیات سے مست اور مدہوش ہوکر اس کے پاس آنا اور اس کے بالوں میں سر ڈال کے مشام خیال سے اسی کو سونگھنا اور اس کے بازو پر سر رکھ کے سوتے وقت، خواب میں اس کے ساتھ ایک نا تمام رہے ہوئے جلسہ عاشقانہ کو دیکھنا۔ آہ! اس آدمی نے اس صاف و پاک نوجوان عورت کو ایک بیسوا کا شریک بستر کرکے ملوث کردیا تھا۔

یا اللہ! کیوں وہ ایسا کرتا تھا؟ اگر حقیقت میں اسے چاہتا تھا تو پھر یہ بے توجہی، یہ اغفال کیوں؟ یہ ایک خطائے موقت ایک قضائے غفلت بھی نہ تھی، اسے اس طرح برسوں سے دھوکا دے رہا ہے، برسوں سے یہ بے وفائی، یہ خیانت کررہا ہے، اور یہ بچی؟ س بیسوا کے عشق پر صرف وہی نہیں، بلکہ یہ چھوٹا ننھا، فرشتہ بھی قربان کیا جارہا ہے۔

یہ بچی بھی روز اپنے ابا کے آنے کا انتظار کرتی ہے اور نہ آنے کا سبب نہیں جانتی، وہ پیار جو اس معصوم کا حصہ تھا وہ اسے نہیں ملتا، ایک معصوم کا حق بھی غضب ہورہا ہے۔ اس غضب پر کیوں اس نے کمر باندھ رکھی ہے۔

نہیں نہیں یہ حالت نہ رہنا چاہیے، نہ رہنے دی جائیگی، نہ رہے گی، ایک علاج ایک تدبیر جوان تمام باتوں کو مٹادے، ان تمام باتوں کو ایک بری خواب کی یاد کی طرح چھوڑ جائے، آہ! کوئی تدبیر سوجھے، کوئی ایسی تدبیر کہ کارگر ہو۔

اس کے بعد پھر اس کے بدن سے، یاس اور عجز کی وجہ سے طوفان اختلاج اٹھا اور سیل اشک بہانے لگا۔ اب اسے اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ اپنی لڑکی پر نظر ڈالے، رومال میں منہ چھپاکے آہستہ آہستہ رونے لگی۔

دوسرے دن صبح اٹھی اور تدبیر کو سوچے ہوئے اٹھی اور اس تدبیر کو عمل میں لانے کا پورا ارادہ کیے ہوئے اٹھی۔ گو آج تک کسی با عصمت عورت نے یہ نہیں کیا مگر وہ کرے گی، اس خارق العادت کام کو کرے گی یعنی جاکر اس بیسوا کی منت کریگی اور اس کا خاوند اسے واپس دے دینے کی التجا کرے گی۔ اس کاغذ میں پتہ مفصل تحریرتھا، ’’چوک کی بڑی سڑک میں داہنے طرف حلوائی کی دوکان کی بازو سے جو گلی پھٹتی ہے، اس میں چوتھا مکان پیتل کے پتروں والے کواڑ کا دروازہ۔۔۔‘‘ اس بڑی مصیبت میں اس کے ساتھ ہمدردی کرنے والی ما ما تحقیق کر آئی تھی۔

وہ آج صبح ابھی پوری بیدار بھی نہ ہوئی تھی۔ آنکھوں میں رات بھر دیر تک جاگنے سے مخموری چھائی ہوئی تھی، وہ خلقت جو اس زمرہ کی متوسلین میں سے ہے، اپنے اپنے گھر چلی گئی تھی۔ یا زیادہ صحیح یہ کہ ابھی گھر سے واپس نہیں آئی تھی، اس کی گرگ باراں دیدہ ماں بھی کسی کام سے باہر تھی، صرف ایک خدمت گارنی گھر میں موجود تھی۔

خدمت گارنی نے اوپر جاکر سونے کے کمرے کا کواڑ آدھا کھول کر کہا۔ ’’ایک بی بی برقع اوڑھے آئی ہیں اور آپ سے ملنے کے لیے اصرار کررہی ہیں۔‘‘ اس خبر پر اسے بہت حیرت ہوئی اس نے آہستہ سے (کہ کہیں وہ جو پہلو میں سورہا تھا جاگ نہ اٹھے) کہا۔ ’’برقع والی بی بی! مجھ سے ملنا چاہتی ہے؟‘‘

اسے یقین نہ آتا تھا، برقع والیاں بھی اس سے ملنے آنے لگیں! اب تک کوئی برقع والی اس کے ہاں آئی نہ تھی۔ پریشان بالوں کو جلد جلد سنوارتے ہوئے، آنکھوں کو ملتے ہوئے رومال سے منہ پونچھتے ہوئے۔ کیونکہ منہ دھونے کا وقت نہ تھا۔ ملگجے دوپٹے کو پھینک کر ایک نیا تہ کیا ہوا دوپٹہ اوڑھتے وقت اس نے پھر خدمت گارنی پر ایک شبہ کی نظر (ایک نظر جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب تک یقین نہیں کرتی کہ حقیقتاً کوئی گھر والی بی بی اس کے پاس آئی ہے) ڈالی۔ کمرے میں سے پنجوں کے بل چل کر وہ بیٹھک کے کمرے میں، جس نے برقع والی بی بی اب تک نہ دیکھی تھی، آئی۔ دیکھا حقیقتاً ایک برقع والی بیٹھی تھی۔ بیٹھی تھی، غلط قلم سے نکل گیا، اس گھر میں بیٹھ کر وہ اپنے کو ناپاک نہ کرنا چاہتی تھی، گو محبت اسے اس گھر کی گلا گھونٹنے والی ہوا میں سانس لینے پر مجبور کررہی تھی، تاہم پاؤں کے سوا اور کوئی عضو یہاں کی چیزوں کو نہ چھوئے گا۔

اس نے اس کی پذیرائی کے لیے بالوں کو ذرا سنوارنے دوپٹے کو الہڑ پنےسے نہیں بلکہ باقاعدہ اوڑھنے کی ضرورت محسوس کی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہوئی۔ نوجوان عورت نے جو ایک ہیکل مہیب عدالت بنی کھڑی تھی اس وقت برقع اٹھایا اور آسمان سے اترنے والی ایک نگاہ عصمت سے اس بیسوا کو جس نے اس کی زندگی کی خوشی کو برباد کردیا تھا دیکھا۔

یہ باوقار عورت جس کی ہر سانس ہر نظر ہر حرکت با عصمت بی بی اور ماں ہونے کی قدسی اور علوی صفت ظاہر ہورہی تھی اس بیسوا کے مقابلہ میں کھڑی ہوکر اس کی زندگی کی مذلت کو اور بڑھا رہی تھی۔ وہ اس سے متاثر ہوکر پوچھنے لگی۔

’’آپ مجھے چاہتی تھیں، بیگم صاحب؟‘‘

اس نے آنکھوں سے شرارے برسا کے بلا تردد جواب دیا۔

’’ہاں تمھارے، نہیں توبہ، برسوں سے مجھ سے چھینے ہوئے خاوند کے لیے آئی ہوں۔‘‘ اس آواز میں ایک عزم آہنیں کی قوت، ایک حکم عدالت کی مہابت موجود تھی۔ ادھر والی فوراً سمجھ گئی اور اپنے دل میں کہنے لگی۔ ’’اوہو، یہ ان کی بیوی ہے، لیکن حسین ہے، ہر گز بری نہیں‘‘ اب یہ دونوں عورتیں۔ جو ہر چیز سے پہلے عورتیں تھیں۔ تیز نگاہوں سے ایک دوسرے کا معائنہ کررہی تھیں۔

ادھر والی نے ایک نگاہ میں دیکھ لیا کہ اس عورت میں جو اپنا خاوند مانگنے آئی ہے ایک حسن تھا جو اس صنف میں نہیں نظر آتا جس سے کہ وہ خود منسوب تھی، ایک علوی حسن تھا جو صرف عصمت دار عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

ایسی آواز سے جس سے ایک ادائے استہزا ظاہر ہوتی تھی اس نے جواب دیا۔ ’’اپنے شوہر کو مجھ سے چاہتی ہو مگر بی بی جان! آپ غلطی پر ہیں، میں نے کسی کے شوہر کو ضبط نہیں کرلیا۔‘‘

وہ اس جواب کی پہلے ہی متوقع تھی، اس کے سنتے ہی اس نے تار باندھ دیا۔ ’’آخر اس کی کیا ضرورت ہے؟ جھوٹ بولنے کی کوئی حاجت نہیں۔ میں تم سے یہاں لڑائی لڑنے نہیں آئی ہوں یقین مانو تم سے بیر رکھنے کا بھی میں اپنے میں کوئی حق نہیں دیکھتی۔ میں جو آئی ہوں تو اس لیے کہ اب بھی شاید تمھارے دل میں وہ چیز باقی ہو جو ہم سب کا حصہ ہے۔ میں تمھیں تریاہٹ کا نہیں، تریا پریم کا واسطہ دیتی ہوں۔ سمجھتی ہو میں کیا کہنا چاہتی ہوں؟ میں تم سے اپنا خاوند چھیننے نہیں آئی کیونکہ اپنے میں اس کی نہ قابلیت، نہ طاقت پاتی ہوں میں اسے مانگنے آئی ہوں۔ تمھاری ہتھیلی میں اس وقت ایک بہت بڑی چیز ہے۔ ایک گھر کا چین، ایک خاندان کا آرام، تمھاری ہتھیلی میں ہے۔ اسےچاہے مسل دو، چاہے چھوڑ دو۔ ان آنکھوں کو جو برسوں کے رونے سے تر ہورہی ہیں تم سکھا سکتی ہو۔ اس سے تمھارا علاقہ کیا ہے۔ کس طرح شروع ہوا، اب کس رنگ میں ہے۔ میں اس کا کھوج نہیں لگانا چاہتی۔ یہ جانتی ہوں کہ وہ اس وقت مجھ سے زیادہ تمھارا ہے۔ مجھ سے بھاگ کے تمھارے پاس آتا ہے۔ حالانکہ وہ میرا شوہر ہے اسے صرف میرا ہوکے رہنا چاہیے۔ میرے سوا اس پر کسی کا حق نہیں، میرے سوا وہ کسی کی ملکیت نہیں، کسی کی امانت نہیں۔ تم عورت کے دل کی باتیں شاید سمجھ سکتی ہوگی؟ سمجھتی ہو نا؟ ہائے کہیں سمجھو۔ تم نے میرا شوہر لے کر مجھ سے کیا کیا لے لیا۔ گھر بھر کا امن، گھر بھر کا چین لے لیا۔ وہ کل رات اور بہت سی راتوں کی طرح یہاں تھا، اس نے ساری رات شاید کیا یقیناً تمھارے ہاں گزاری، شاید تم جو مجھ سے ملنے اس کمرے میں آئیں تو اس کے پہلو سے اٹھ کے آئیں۔ لیکن جانتی ہو کہ اس کی بیوی نے یہ رات کیوں کر کاٹی یہی رات نہیں، اسی طرح کی اور سیکڑوں راتیں کس طرح کاٹیں، جہنم میں انگاروں پر لوٹ لوٹ کر کاٹیں، میری پانچ برس کی۔ ہاں سنتی ہو، میرے پاس پانچ برس کی ایک ننھی بھولی جان بھی ہے۔ وہ بھی رو روکے بابا کا انتظار کرکے سوئی ہے۔ البتہ تمھیں خبر نہیں کہ گھر میں یہ کیفیت کیسی مصیبت کی کیفیت ہے اگر تم جانتی ہوتیں تو تم ضرور اس سے کہتیں،

’’جاؤ میرے پاس سے جاؤ تمھارے گھر میں جو عورت تمھارا انتظار کررہی ہے، جو بچی تمھارا انتظار کررہی ہے اس کے پاس جاؤ، میں ان کے بلکنے کا سبب نہیں ہونا چاہتی۔۔۔‘‘ جواب نہ دو، تمھاری آنکھوں کا نیچا ہونا ہی کافی جواب ہے۔ تم جس زندگی کاٹنے پر مجبور ہو، شاید اس زندگی نے بھی تمھاری طبیعت کو بالکل مسخ نہ کردیا ہوگا کیونکہ تم عورت ہو اور عورت سے عورت پن کب جاسکتا ہے۔ ہر عورت کی طبیعت بیوی بننے، ماں بننے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ مجھے یہاں تک لانے والی تمھاری خوشامد کرانے والی چیز یعنی بچے کی محبت، شاید تم میں بھی ہو۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اس پر رقت طاری ہونے لگی اور وہ یہ بھول گئی کہ وہ ایک فاحشہ کے مقابلہ میں ہے اور طبیعت پر قابو میں ذرا سی کمی آنے لگی آواز میں باوجود بے انتہا ضبط کے کچھ بھر بھراہٹ پیدا ہوگئی، فقرے دل میں چشمے کی طرح ابل رہے تھے، وہ کم کہنا چاہتی تھی مگر زیادہ کہہ رہی تھی۔ ادھر والی اس پر جوش پر خروش دلی تقریر کے سامنے چپ کھڑی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ کیا جواب دے، کبھی کبھی ’’لیکن میں‘‘ ’’مگر وہ‘‘ سے کچھ فقرہ شروع کرنا چاہتی مگر اس بدبخت بیوی کے مقابلہ میں جو اس کے سامنے اپنے تمام عذاب زندگی کے ساتھ فریاد قلب کررہی تھی کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔

ایک دم، یہ مغلوبیت اس کے نفس پر گراں گزری۔ اس عورت کے سامنے اپنے تئیں مقابلہ سے عاجز دیکھ کر اس عصمت کے حضور میں اپنی ذلت فحش کو بداہتاً محسوس کرکے اس کے دل میں ایک طغیان غرور اٹھا اور اس قلب میں جس میں ذرا کی ذرا کو عورت پن کی حسیات مرحمت اور رقت پیدا ہوئی تھیں، یکایک تمام حیات فاحشہ جاگ اٹھی اور اس نے اس حس سے مغلوب ہوکر، اس عورت کو جو اس آدمی کی اس قدر فریفتہ معلوم ہوتی تھی۔ حقارت آمیز جواب دینے کا ارادہ کرلیا اور کہا۔

سبحان اللہ آپ کی بھی نرالی باتیں ہیں۔ مجھ سے آکر اپنا خاند مانگتی ہو، اگر ایسی ہی ضرورت ہے تو اسے پکڑ کے رکھنے، اپنا کرکے رکھنے کی تدبیر کیوں نہیں سوچتیں۔‘‘

نوجوان عورت نے دیکھا کہ سامنے والی اب وہ عورت نہیں جس میں حسن نسوانی پیدا ہو رہا تھا بلکہ اب وہ ایک عورت ہے جو ایک فاحشہ کی صفت سے متصف ہوکر لڑائی لڑنا چاہتی ہے۔ اس نے ذرا اونچی آواز سے جواب دیا۔

’’مجھ سے پہلے تم نے اسے اپنا کرلیا، اپنے ساتھ باندھ لیا تھا؟ پھر کیوں پوری محافظت نہ کی۔ کیوں اسے اجازت دی کہ وہ جاکر ایک جواب لڑکی کی زندگی تباہ کردے۔ تمھیں اسے پکڑ کے رکھنا چاہیے تھا۔ نہ اسے پکڑ کے رکھتی ہو، نہ چھوڑ دیتی ہو۔ میں اپنے میں اتنی قوت نہیں پاتی، وہ چلّتر نہیں جانتی کہ اسے تمھارے پنجوں سے چھڑا لوں۔‘‘

ادھر والی، اب کونے میں ایک مونڈھا کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی اور پاؤں پر پاؤں رکھ کے انہیں ہلانا شروع کیا اور ایک مستہزی اور بے اماں نظر سے نوجوان عورت کو دیکھنے لگی۔ ایک دو منٹ تک خاموشی طاری رہی، دونوں سوچ رہی تھیں کہ ان باتوں کا انجام کیا ہوگا کہ اتنے میں مونڈھے والی نے پوچھا۔

تو اب میں کیا کروں؟ہر شام بیگم صاحب کے گھر، ان کے شوہر کو ہاتھ پکڑکے پہنچا آیا کروں؟‘‘

اس نے اس طعنہ، اس تحقیر پر بھی صبر کیا، ایک مرتبہ پھر اس کی نیکی طبیعت (اگر اس میں نیکی طبیعت رہ جانے کا احتمال باقی ہو) سے اپیل کرنے کا ارادہ کیا۔

’’کیوں یوں مجھ پر فقرے کستی ہو میں نے شروع ہی میں کہدیا تھا کہ تم سے لڑنے نہیں آئی ہوں۔ میں جو تم سے مانگتی ہوں، جو تم سے امید رکھتی ہوں وہ ایک سادی سی بات ہے تم اس آدمی کو چاہتی نہیں۔ یا کیسے کہوں، وہ بھی تمھارے لیے اور بہت سے آدمیوں کی طرح ایک آدمی ہے۔ وہ بھی ان میں سے ایک ہے جس سے تمھارے گھر کا خرچ نکلتا ہے اور بس۔‘‘

اس پر یکایک وہ غصہ میں آگئی اور کہنے لگی۔ ’’میرے گھر میں آکر مجھ کو ایسی باتیں سناتی ہو، میری ہتک کرتی ہو، ایں‘‘

فاحشہ تو غصہ کے لیے ایک بہانہ ڈھونڈھ رہی تھی، ’’باتیں سناتی ہو، میری ہتک کرتی ہو‘‘ پر ہی اس نے بس نہیں کیا بلکہ اور بھی بہت کچھ کہہ ڈالا، نوجوان عورت اب تک اپنی متانت قائم رکھے تھی لیکن اب وہ ہاتھ سے چھوٹی جاتی تھی اور وہ بھی دلی غصہ سے کانپ رہی تھی اور اس کا دل چاہتا تھا (مگر دل کو روکتی تھی) کہ اس بےحیا عورت پر جو اپنی عادت دیرینہ کے موافق، بغیر سوچے سمجھے اپنے سینے سے دوپٹہ ہٹاتے ہوئے۔ اول فول بک رہی تھی، حملہ کرکے مونڈھے پر سے گرادے لیکن طبیعت پر جبر کیے ہوئے خاموش کھڑی سن رہی تھی۔ اتنے میں دیکھا کہ خود وہ اٹھی اور اس سے ہاتھا پائی کرنی چاہتی ہے، اس کو دیکھ کر اس کا عزم صبر بالکل جاتا رہا، اور اس نے اونچی آواز سے کہا۔

’’ہاں ہاں میں تمھیں تمھارے گھر میں ایسی باتیں سناتی ہوں، تمھاری ہتک کرتی ہوں، جانتی ہو تم پر عصمت والی بیبیوں، محبت والی ماؤں کی لعنتیں، بددعائیں پڑتی ہیں۔ تم جو گھروں کے چین بیبیوں کے آرام کی دشمن ہو تم جو ہمارے خاوندوں کو ہم سے چرا لیتی ہو۔۔۔‘‘ یہ کہتی ہوئی کانپ رہی ہے اور اپنی خلل زندگی کا انتقام اس فاحشہ کی تحقیر کرنے، اسے سخت سخت باتیں سنانے سے لینا چاہتی ہے۔ اب ادھر والی بھی مارے غصہ کے پاگل سی ہوگئی۔ دو پٹہ بدن سے اتار کر پھینک دیا، اور اس پر حملہ کرنے کے لیے ایک قدم آگے ڈالا، مگر صرف ایک قدم۔ دوسرا قدم ڈالنا چاہتی ہی تھی کہ پیچھے سے فولادی ہاتھوں نے اس کے کندھوں کو پکڑ لیا، اس وقت ان دونوں عورتوں نے اسے دیکھا۔

وہ تھوڑی دیر سے وہاں کواڑ کے پیچھے کھڑا سن رہا تھا۔ اس بیس منٹ کے زمانہ نے اس پر تزکیہ نفس و تصفیہ حیات کے لیے برسوں کی ریاضت کا کام دیا اور اس نے اپنی نوجوان بیوی کو، اس بیوی کو جس کے آنسوؤں کے نشان اب تک اس کے رخساروں پر تھے، جس کا صرف غمگین چہرہ کھلا ہوا تھا، باقی لمبا متناسب الاعضاء لطیف اور شرمیلا جسم برقع میں چھپا ہوا تھا، دیکھا۔ پھر فوراً نظر اس دوسری پر پڑی جو بالوں کو بکھیرے، باسی منہ اور مخمور مگر پھٹی آنکھیں لیے ملگی کرتی جو اوپر کو چڑھ گئی تھی پہنے اس جسم کو ظاہر کررہی تھی جس کی رگ رگ سے حسیات ملوث افشاء ہورہے تھے اور جس کی تمام ہیئت کذائی سے گویا بوئے فحش کے بھپکنے نکل رہے تھے۔ ان دونوں کو مقابل دیکھ کر ان دونوں کا فرق اس کی آنکھوں میں چبھ گیا۔ ایک پاک و لطیف دوسری کثیف و ملوث، ہم جسماً ہم اخلاقاً ملوث۔

پھر اپنی بیوی کی آواز کی رقت میں وہ ایک ادائے استرا حام پاتا تھا جو دل کو مسلے ڈالتی تھی، اس دوسری کی آواز میں بے انصافی استہزا، گستاخی، جرات چھپی ہوئی تھی جس کو سن کے وجدان نفرت کرتا تھا اور اسے ایسا جوش آیا کہ اسے تھپڑ مارکے گرادے اور اس کے قدموں پر گر پڑے۔ اللہ کی پناہ! اس عورت، اس مقدس اور محترم فرشتہ سعادت کو کس پر قربان کررہا تھا، کس کے لیے ستا رہا تھا؟ ایک فرسودہ ملوث مخلوق کے لیے جو سیکڑوں آغوش میں جاکر، متاع عشق اور جنس حسن بیچتی تھی۔‘‘

ایک منٹ میں وہ آنسوؤں کے دریا جو اس کی وجہ سے بہے اس کی نظروں کے سامنے سے گزر گئے۔ وہ تمام بے انصافیاں جو اس نے اپنی بیاہتا کے ساتھ کی تھیں۔ اس کی ضمیر پر برچھی کی طرح آکر لگیں۔ اب قلباً اپنے تئیں اس سے کس قدر مربوط اور اس سے کس قدر دور پارہا ہے۔ جب یہ بات ہے، تو اب تک کونسی چیز مانع ہے، بس انشاء اللہ ایک پھلانگ میں اپنے تئیں اس قعر مذلت سے نکال کر اپنی زندگی اپنی بیوی بچوں کے لیے وقف کردے گا اور اس کے پاؤں پر سر رکھ دیگا۔

یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دیکھا کہ فاحشہ اس کی بیوی پر ہاتھ چھوڑنا چاہتی تھی۔ یہ دیکھتی ہی دنیا، اس کی آنکھوں میں تاریک ہوگئی۔ وہ بجلی کی تیزی کے ساتھ کواڑ کھول کے کمرے میں در آیا اور اپنے آہنیں پنجوں سے اس کے کندھوں کو پکڑ جھنجھوڑ دیا۔

اور پھر ایک ذرا سا جھٹکا دے کے اسے اور اس کے ساتھ اس کی محبت کو اپنے سے دور پھینک دیا اور پھر اپنی بیوی کے پاس جاکر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور ایک نگاہ استر حام کے ساتھ جس میں آج کے دن تک کے تمام قصوروں کے لیے طلب عفو آکر جمع ہوگئی تھی، اس نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا۔

’’میری خطاؤں کو معاف کردو، میں صر ف تمھیں چاہتا ہوں، میں صرف تمھارا ہوں اور تمھارا ہوکے رہوں گا۔‘‘

اور پھر اس کے چہرے کو جس پر دو آنسوؤں کے قطرے دو قطرہ سعادت ڈھلک رہے تھے، اپنی طرف کھینچ کے، اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے۔

اور جب کہ وہ فاحشہ اپنے غصہ اور حسد کو ایک کھسیانی ہنسی سے چھپانے کی کوشش کررہی تھی، اس بیاہے جوڑے نے جن کے درمیان اب تک ایک سرد مہری کی دیوار حائل تھی جسے وہ ہٹا نہ سکتے تھے۔ پاک، صاف، محبت بھرا بوسہ لے کر گویا دوسری مرتبہ نکاح کیا اور وہ پیمان وفا باندھا جو اب عمر بھر تک نہ ٹوٹے گا۔ یہ بوسہ اس پیمان وفا کی مہر تھا۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.