نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی

نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی (1916)
by قمر ہلالی
324391نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی1916قمر ہلالی

نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی
ملیں گے خاک میں لیکن رہے گی جستجو باقی

میں اپنا راز کہنے کو بلایا تھا تجھے ہمدم
مگر افسوس میں ہی رہ سکا اور ہے نہ تو باقی

یہ دنیا مٹنے والی ہے تو پھر اس پر بھروسہ کیا
فنا ہو جائیں گے سارے رہے گا تو ہی تو باقی

کراماً کاتبیں جا کر یہ عزرائیل سے کہنا
ٹھہر جاؤ ابھی کچھ یار سے ہے گفتگو باقی

وضو زاہد کا آب جو سے اور میرا ہے آنسو سے
وضو بہہ جائے گا اس کا رہے میرا وضو باقی

طہارت جسم کی گو ہو گئی ہے غسل ظاہر سے
صفائی کے لئے دل کی ابھی ہے شست و شو باقی

جلا کر آتش فرقت نے دل کی خاک اڑائی ہے
نہیں سینہ میں کچھ باقی مگر ہے ایک ہو باقی

ہلالی کر دیا تو نے قمرؔ کو ایک چلو میں
رہے محشر تلک ساقی ترا جام و سبو باقی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DA%A9%D9%84%D9%86%DB%92_%DA%A9%D9%88_%DB%81%DB%92_%D8%AF%D9%85_%D9%85%DB%8C%D8%B1%D8%A7_%D9%85%DA%AF%D8%B1_%DB%81%DB%92_%D8%A2%D8%B1%D8%B2%D9%88_%D8%A8%D8%A7%D9%82%DB%8C