نکل آیا وہ گھبرا کر دل اس کا اس قدر دھڑکا
نکل آیا وہ گھبرا کر دل اس کا اس قدر دھڑکا
صدا بجلی کی دی نالے نے جب منہ سے مرے کڑکا
ٹھہر کچھ دن میں دست اندازیوں کا وقت آئے گا
نہال نو دمیدہ ہوں بھروسہ کیا مری جڑ کا
ہمیشہ خاک و خوں میں مجھ کو بیتابی بٹھایا کی
بہ شکل مرغ بسمل کون سے پہلو نہیں پھڑکا
خیال عارض روشن میں صبح و شام یکساں ہے
یہاں آٹھوں پہر پیش نظر ہے نور کا تڑکا
یہ سچ ہے وقت پر بے رونقی بھی کام آتی ہے
نہال خشک کو کھٹکا نہیں ہوتا ہے پت جھڑ کا
نہ کیوں پنہاں رکھوں دامن میں اس کو کم نگاہوں سے
سمجھتا ہوں میں اپنا اشک گلگوں لعل گودڑ کا
گزرتا ہے سلامت واقف انجام مطلب سے
نہیں رستہ کھٹکتا آنکھ میں دہقاں کی بیہڑ کا
لیے ہیں گل کے بوسے آج کس چوری سے بلبل نے
پڑا سویا کیا گلچیں کوئی پتا نہیں کھڑکا
چھپایا پردۂ فانوس بن کر جسم عریاں نے
درون استخواں سے جس گھڑی شعلہ کوئی بھڑکا
بجز ایما کلام عشق مطلب سے معرا ہے
کسی پر راز کھل سکتا نہیں مجذوب کی بڑ کا
فصاحت کے خلاف آئے نظر سب قافیے ہم کو
نسیمؔ ایسی زمیں پر کیجیے اطلاق بیہڑ کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |