نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
یکایک کھل گئیں دونوں طرف سے دل کی کلجھڑیاں
یہ اب کی شب برات اے یار تجھ بن ہم پہ یوں گزری
ہوائی تو ہماری آہ تھی اور اشک پھلجھڑیاں
ہماری آہ جیسے لخت دل سے گتھ کے نکلے ہے
کہیں دیکھی ہیں تیں اس لطف سے پھولوں کی بھی چھڑیاں
موا مجنوں تو اک مدت ہوئی پر اب تک اس غم میں
کریں ہیں نالہ مل کر ہم دگر زنجیر کی کڑیاں
زمیں سے یہ لگو نہیں گل بھلا کس طرح نکلے ہیں
جو لاکھوں صورتیں دل کش نہیں اس خاک میں گڑیاں
کبھو ٹوٹا نہ مژگاں سے مری آنسو کا زنجیرا
نہ جانے اشک کے قطرے تھے یا موتی کی یہ لڑیاں
بھرے آتے ہیں قائمؔ پے بہ پے اس طرح آنسو سے
کہے تو چشم کو میری کہ ہیں یہ رہٹ کی گھڑیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |