نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں

نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں
by آغا اکبرآبادی

نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں
ہم ان کے ہوئے وہ ہمارے ہوئے ہیں

جن آنکھوں میں آنسو چکارے ہوئے ہیں
ہم ان کی نگاہوں کے مارے ہوئے ہیں

نہ کھٹکیں کہو کس طرح تیر مژگاں
جگر پر ہمارے اتارے ہوئے ہیں

جھڑے جو تری کفش زریں کے ذرے
فلک پر وہ جا کر سیارے ہوئے ہیں

عبث جان دیتی ہے بلبل گلوں پر
یہ اس رخ کے صدقے اتارے ہوئے ہیں

کس انداز سے بند محرم کسے ہیں
کہ جوبن کو ان کے ابھارے ہوئے ہیں

یقیں ہے بلا ہو کوئی آج نازل
وہ بالوں کو اپنے سنوارے ہوئے ہیں

خبردار ہاتھوں سے جانے نہ پائیں
یہ دزد حنا مال مارے ہوئے ہیں

کہے دیتی ہیں صاف آنکھیں تمہاری
کسی غیر سے کچھ اشارے ہوئے ہیں

میں منجدھار میں ڈوبتا ہوں الٰہی
وہ دل لے کے میرا کنارے ہوئے ہیں

ہمیشہ جو بھرتے تھے دم دوستی کا
وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں

نظر کر دعا پر خداوند عالم
کہ ہم ہاتھ اپنے پسارے ہوئے ہیں

بھلا غیر کی اس میں ہے کیا شکایت
وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں

انہیں ہم نے نہلا دیا دے کے چھینٹیں
عجب لطف دریا کنارے ہوئے ہیں

خبر آمد گل کی شاید ہے آغاؔ
چمن سارے جھاڑے بہارے ہوئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse