نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے  (1935) 
by محمد اقبال

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!

بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

فلَک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

اِسی خطا سے عتابِ مُلُوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہُوں مآلِ سکندری کیا ہے

کسے نہیں ہے تمنّائے سَروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سَروری کیا ہے!

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse