نگاہ یار سوں حاصل ہے مجھ کوں مے نوشی

نگاہ یار سوں حاصل ہے مجھ کوں مے نوشی
by داؤد اورنگ آبادی

نگاہ یار سوں حاصل ہے مجھ کوں مے نوشی
لب خموش نے بخشا ہے اس کے خاموشی

بجا ہے گر کرے عاشق کوں ایک دور میں مست
ہے جام چشم صنم میں شراب بے ہوشی

کیا ہے شوخ نے بر میں قبائے نافرماں
عدول کیوں نہ کرے وعدۂ ہم آغوشی

سجن کے ناوک مژگاں کے دل میں ہیبت رکھ
کیا ہے میں نے یہ دریا منے زرہ پوشی

کیا نہیں ہوں رقم خط میں اس سبب داؤدؔ
میں نامہ بر سوں کہا ہوں کہ راز ہے گوشی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse