نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |