نگہ لڑانے کہ آگے اس کی ہے ناز کرتی پڑی لگاوٹ
نگہ لڑانے کہ آگے اس کی ہے ناز کرتی پڑی لگاوٹ
حنا دکھانے کہ سامنے بھی ہے دست بستہ کھڑی لگاوٹ
دکھا کہ چیں کو جبیں کہ اوپر اسے تُو کچھ حُسن ہے دکھاتا
جُو سادہ دِل ہو تُو سمجھے خفگی اُور اس کی ہے وہ بڑی لگاوٹ
چھڑی اٹھاتا ہے جب وُہ گُل کی تُو ہے کچھ اِس میں بھی گل کھلاتا
لگا دے تن پر وُہ جس کہ ہنس کر تُو وُہ چھڑی ہے چھڑی لگاوٹ
خفا ہو جس سے تُو وُہ یہ جانے کے مُجھ سے روٹھا بس اب وُہ لیکن
پھنسا وُہ پھندے میں مدتوں کو جہاں تک اس کی لڑی لگاوٹ
نظیرؔ دِل کو بچاوے یارو کب اس صنم سے کے جس میں ہووے
گھڑی مچلنا گھڑی چہکنا گھڑی جھجکنا گھڑی لگاوٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |