نہیں دنیا میں سوا خار و خس کوچۂ دوست
نہیں دنیا میں سوا خار و خس کوچۂ دوست
سر شوریدہ کی خواہش بکلاہے گاہے
خون عشاق کا دعویٰ مرے قاتل تجھ پر
ہوتے اثبات نہ دیکھا بہ گواہے گاہے
ہے بہار آنے کی کچھ دھوم کہ آگے تو نہ تھا
دل دیوانہ بایں حال تباہے گاہے
رہتے کس شہرے میں ہو تم سے تو ملنا پیارے
اتفاقیہ ہے بعد از دو سہہ ماہے گاہے
ہم تمازت میں ترے حکم سے لیں ہیں ساقی
سایۂ تاک میں یک لحظہ پناہے گاہے
ہم گداؤں کو ہے تسلیم و رضا سے سروکار
ملتجی ہیں نہ ز منعم نے ز شاہے گاہے
بے زباں کلۂ سبزی کی جگہ اے نو خط
نہ اگا خاک سے میری پر کاہے گاہے
اے محبؔ جرم محبت کے سوا عالم میں
قتل عاشق ہی سنا ہے بگناہے گاہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |