نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا
by انعام اللہ خاں یقین

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا
ہمارے توبہ کر لینے سے پیمانے پہ کیا گزرا

برہمن سر کو اپنے پیٹتا تھا دیر کے آگے
خدا جانے تری صورت سے بت خانے پہ کیا گزرا

مجھے زنجیر کر رکھا ہے ان شہری غزالوں نے
نہیں معلوم میرے بعد ویرانے پہ کیا گزرا

ہوئے ہیں چور میرے استخواں پتھر سے ٹکرا کے
نہ پوچھا یہ کبھی تو نے کہ دیوانہ پہ کیا گزرا

یقیںؔ کب یار میرے سوز دل کی داد کو پہنچے
کہاں ہے شمع کو پروا کہ پروانہ پہ کیا گزرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse