نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
مَرے مذہب میں ہے تیری رضا فرض
شعورِ ہستیِ موہوم ہے کفر
فنا بعدِ فنا بعدِ فنا فرض
نہیں آگاہ مستِ بادۂ شوق
کہاں سنّت کدھر واجب کُجا فرض
رہِ تسلیم میں از روئے فتویٰ
دعا واجب پہ ترکِ مدّعا فرض
نہ چھوٹے کفر میں بھی وضعِ ایماں
کہ ہر حالت میں ہے یادِ خدا فرض
نہیں دیکھا کسی نے حُسنِ مستور
بقدرِ فہم لیکن کر لیا فرض
نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی میں
مُجھے کرتے ہیں کیوں اُس سے جدا فرض
نہ کھولوں گا نہ کھولوں گا زباں کو
کہ ہے اخفائے رازِ دلربا فرض
بلا سے کوئی مانے یا نہ مانے
چلو ہم کر چُکے اپنا ادا فرض
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |