نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک
نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک
مکاں ڈھونڈ آئے اس کا لا مکاں تک
بنا ہر موئے تن خار مغیلاں
ستایا جوش وحشت نے یہاں تک
ہماری جان کے پیچھے پڑا ہے
دل ناداں کو سمجھائیں کہاں تک
رواں شب کو ہوا کیا ناقۂ روح
نظر آئی نہ گرد کارواں تک
زمیں پہ زلزلہ آیا تو پہنچا
مرے نالوں کا غوغا آسماں تک
ملے ہے دل کو ذوق بوسۂ لب
مزا ہے ورنہ ہر شے کا زباں تک
جو رکھتے تھے دماغ اپنا فلک پر
زمیں پر اب نہیں ان کا نشاں تک
جلایا شمع سا اس شعلہ رو نے
گئے گھل سوز غم سے استخواں تک
جہاں کی سیر کی سیاحؔ ہم نے
نہ پہنچے پر سخن کے قدرداں تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |