نہیں گھر میں فلک کے دل کشائی
نہیں گھر میں فلک کے دل کشائی
کہاں ہوتی ہے یہاں میری سمائی
کرے جو بندگی سو ہو گنہ گار
نیاری ہے یہاں کی کچھ خدائی
ذبح کرنے کوں ناحق بے کسوں کے
بتا تیری کمر یہ کن کسائی
تم اپنی بات کے راجا ہو پیارے
کہیں سیں ضد تمہیں ہو ہے سوائی
چمن کوں جیت آئے ناز بو جب
تمہارے سبزۂ خط نیں ہرائی
سپیدی قند کی پھیکی لگی جب
تمہارے رنگ کی دیکھی گرائی
بہا خون جگر انکھیوں سیں پل پل
سجن بن رات ہم کوں یوں بہائی
نہیں ٹکنے کا پاؤں آبروؔ کا
گلی کی راہ اس کے ہات آئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |