نہیں یہ جلوہ ہائے راز عرفاں دیکھنے والے
نہیں یہ جلوہ ہائے راز عرفاں دیکھنے والے
تمہیں کب دیکھتے ہیں کفر و ایماں دیکھنے والے
خدا رکھے ترے غم کا بہت نازک زمانہ ہے
سحر دیکھیں نہ دیکھیں شام ہجراں دیکھنے والے
یہ کس نے لا کے رکھ دی سامنے تصویر محشر کی
ابھی چونکے ہی تھے خواب پریشاں دیکھنے والے
کہاں تک آئینہ دار تجلیات خود بینی
یہ پردہ بھی الٹ دے او دل و جاں دیکھنے والے
یہ دیوانے سجود شوق کی عظمت کو کیا جانیں
مجھے کیا پائیں فرق کفر و ایماں دیکھنے والے
کبھی گرداب سے بھی کھیل موجوں سے بھی ٹکرا جا
ارے ساحل پہ رہ کر جوش طوفاں دیکھنے والے
ترے قربان باسطؔ اور باسطؔ کی ہر اک دنیا
بہار وحشت آشفتہ حالاں دیکھنے والے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |