نہ آئینہ ہی اس صورت کے آگے ہکا بکا ہے

نہ آئینہ ہی اس صورت کے آگے ہکا بکا ہے
by عشق اورنگ آبادی

نہ آئینہ ہی اس صورت کے آگے ہکا بکا ہے
سیاہی دیکھ اس کے خط کے مد کی دل میں لکا ہے

ہوا انساں نمایاں نور ذات پاک وحدت سے
کہ جیوں خورشید کے پرتو سے ذرے میں جھمکا ہے

ہوا اخبار سے ثابت ثواب حج اکبر ہے
زیارت کر لے اے غافل دل آگاہ مکہ ہے

بچا نیں کوئی اس ظالم کے جور چشم و مژگاں سے
وہاں آئینہ بھی شان عسل کا سا شبکا ہے

جھکا کر ایک میں سر نام اپنا کر دیا روشن
فنون عشق میں کم کوئی پروانہ سا پکا ہے

موالیٔ علی کا ہے بخیر انجام بوجھ اے عشقؔ
خدا حافظ ترا دوزخ بھی اک شرعیٔ دکا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse