نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا

نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
by ریاض خیرآبادی

نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
مرے عمر بھر اور مرنا نہ آیا

یہ دل کی تڑپ کیا لحد کو ہلاتی
تمہیں قبر پر پاؤں دھرنا نہ آیا

نمکداں کئے تم نے گو لاکھ خالی
نمک تم کو زخموں میں بھرنا نہ آیا

یہی دن تھے سو سو طرح تم سنورتے
جوانی تو آئی سنورنا نہ آیا

دباتا تھا کافر حسینوں کا جوبن
مرے داغ دل کو ابھرنا نہ آیا

تری تیغ کیا کیا نہائی لہو میں
تری طرح لیکن نکھرنا نہ آیا

سنا کر وہ کہتے ہیں کس بھولے پن سے
ہمیں وعدہ کر کے مکرنا نہ آیا

بنے پنکھڑی نقش پا کب لحد پر
تجھے اے صبا گل کترنا نہ آیا

ریاضؔ اپنی قسمت کو اب کیا کہوں میں
بگڑنا تو آیا سنورنا نہ آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse