نہ آ جائے کسی پر دل کسی کا
نہ آ جائے کسی پر دل کسی کا
نہ ہو یا رب کوئی مائل کسی کا
لگا اک ہاتھ بھی کیا دیکھتا ہے
کہیں کرتے ہیں ڈر قاتل کسی کا
ادا سے اس نے دو باتیں بنا کر
کسی کی جان لے لی دل کسی کا
اٹھا جب درد پہلو دل پکارا
نہیں کوئی دم مشکل کسی کا
ابھی جینا پڑا کچھ دن ہمیں اور
ٹلا پھر وعدۂ باطل کسی کا
بہت آہستہ چلمن کو اٹھانا
ملیں آنکھیں کہ بیٹھا دل کسی کا
حفیظؔ اس طرح بھرتے ہو جو آہیں
دکھاؤ گے مگر تم دل کسی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |