نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
نہ ہائے ہائے میں تالو سے شب زبان لگی
جلا جگر تپ غم سے پھڑکنے جان لگی
الٰہی خیر کہ اب آگ پاس آن لگی
گلی میں اس کی نہ پھر آتے ہم تو کیا کرتے
طبیعت اپنی نہ جنت کے درمیان لگی
جفائے غیر کا شکوہ تھا تیرا تھا کیا ذکر
عبث یہ بات بری تجھ کو بد گمان لگی
ہنسو نہ تم تو مرے حال پر میں ہوں وہ ذلیل
کہ جس کی ذلت و خواری سے تم کو شان لگی
کہاں وہ آہ و فغاں دم بھی لے نہیں سکتے
ہمیں یہ تیری دعائے بد آسمان لگی
میں اور اس کو بلاؤں گا روز وصل میں لو
اجل بھی کرنے محبت کا امتحان لگی
برنگ صورت بلبل نہیں نوا سنجی
یہ کیا ہوا کہ چپ اے گلستاں بیان لگی
سدا تمہاری طرف جی لگا ہی رہتا ہے
تمہارے واسطے ہے دل کو مہربان لگی
وہ کینہ توز تھا مومنؔ تو دل لگایا کیوں
کہو تو کیا تمہیں ایسی بھلی وہ آن لگی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |