نہ اپنے بس میں ہے رونا نہ ہائے ہنس دینا
نہ اپنے بس میں ہے رونا نہ ہائے ہنس دینا
کوئی رلائے تو رونا ہنسائے ہنس دینا
وہ باتوں باتوں میں بھر آنا اپنی آنکھوں کا
وہ اس کا دیکھ کے صورت کو ہائے ہنس دینا
کسی کے ظلم ہیں کچھ ایسے بے محل ہم پر
کہ جی میں آتا ہے رونے کی جائے ہنس دینا
وہ خود ہنسائے تو کم بخت دل ضدیلے دل
یہ وضع داری ہے کیوں ہائے ہائے ہنس دینا
عدول حکمئ درد جگر کہ اب اے چشم
جو لاکھ بار وہ اٹھ کر رلائے ہنس دینا
کوئی جو تجھ پہ ہنسے برق پاش عالم سوز
تو پھر ہر ایک پہ تو بھول جائے ہنس دینا
وہ ہم سے پوچھتے ہیں تم ہمارے عاشق ہو
جواب کیا ہے اب اس کے سوائے ہنس دینا
صفیؔ کہاں کی شکایت کہاں کا غم غصہ
کسی کا عین لڑائی میں ہائے ہنس دینا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |