نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا

نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
by امیر مینائی
295078نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کاامیر مینائی

نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
مزا میں کیا کہوں آغاز آشنائی کا

کہاں نہیں ہے تماشا تری خدائی کا
مگر جو دیکھنے دے رعب کبریائی کا

وہ ناتواں ہوں اگر نبض کو ہوئی جنبش
تو صاف جوڑ جدا ہو گیا کلائی کا

شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا

یہ جوش حسن سے تنگ آئی ہے قبا ان کی
کہ بند بند ہے خواہاں گرہ کشائی کا

کمان ہاتھ سے رکھ صید گاہ عرفاں میں
کہ تیر صید ہے یاں دام نارسائی کا

وہ بد نصیب ہوں یار آئے میرے گھر تو بنے
سمٹ کے وصل کی شب تل رخ جدائی کا

ہزاروں کافر و مومن پڑے ہیں سجدے میں
بتوں کے گھر میں بھی سامان ہے خدائی کا

تمام ہو گئے ہم پہلے ہی نگاہ میں حیف
نہ رات وصل کی دیکھی نہ دن جدائی کا

نہیں ہے مہر لفافہ پہ خط کے اے قاصد
یہ داغ ہے مری قسمت کی نارسائی کا

نقاب ڈال کے اے آفتاب حشر نکل
خدا سے ڈر یہ کہیں دن ہے خود نمائی کا

نہیں قرار گھڑی بھر کسی کے پہلو میں
یہ ذوق ہے ترے ناوک کو دل ربائی کا

مری طرف سے کوئی جا کے کوہ کن سے کہے
نہیں نہیں یہ محل زور آزمائی کا

کہا جو میں نے کہ میں خاک راہ ہوں تیرا
تو بولے ہے ابھی پندار خود نمائی کا

جنوں جو میری طرف ہو وہ جست و خیز کروں
کہ دل ہو ٹوٹ کے ٹکڑے شکستہ پائی کا

امیرؔ روئیے اپنے نصیب کو ایسا
کہ ہو سپید سیہ ابر نارسائی کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.