نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
بس اب آگے حضرت عشق جی چلے جائیے گھر ہی کو خیر سے
وہ جو گٹکا پارے کا منہ میں لے پڑے اڑتے پھرتے ہیں جوگی جی
سو تو بھرت پور سے اداس ہو چلے آئے قلعۂ دیر سے
نہیں ہوتے عام کے روبرو ہمیں قبلہ خاص ہے آرزو
کہ خدا کرے پڑے گفتگو کسی پیر و مرشددیر سے
کہو کس وسیلے سے شیخ کے شک و شبہ ہووے کمال میں
کہ جو نعمت آپ کو پہنچی ہے سو میاں غلام زبیر سے
جو خفا ہوئے تو ہوئے اجی جو لڑی بھڑی تو لڑے سہی
گلہ ہے سو یار عزیز سے نہ کہ شکوہ صورت غیر سے
مجھے اک حیات دوبارہ دے اسی قدرت اپنی سے اے خدا
کہ خطاب فقرۂ کم لبثت کیا تھا جن نے عزیر سے
وہ جو ہے علی ولی وصی ہے محمد عربی اخی
سو تو عبد خاص کریم ہے اسے دشمنی ہے نصیر سے
یہی چال اپنی ہے انشاؔ اب کبھی تو درختوں سے خلطے ہیں
کبھی ہے صبا سے خطاب کچھ کبھی وحش سے کبھی طیر سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |