نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے

نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
by انشاء اللہ خان انشا
294592نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سےانشاء اللہ خان انشا

نہ تو کام رکھیے شکار سے نہ تو دل لگائیے سیر سے
بس اب آگے حضرت عشق جی چلے جائیے گھر ہی کو خیر سے

وہ جو گٹکا پارے کا منہ میں لے پڑے اڑتے پھرتے ہیں جوگی جی
سو تو بھرت پور سے اداس ہو چلے آئے قلعۂ دیر سے

نہیں ہوتے عام کے روبرو ہمیں قبلہ خاص ہے آرزو
کہ خدا کرے پڑے گفتگو کسی پیر و مرشددیر سے

کہو کس وسیلے سے شیخ کے شک و شبہ ہووے کمال میں
کہ جو نعمت آپ کو پہنچی ہے سو میاں غلام زبیر سے

جو خفا ہوئے تو ہوئے اجی جو لڑی بھڑی تو لڑے سہی
گلہ ہے سو یار عزیز سے نہ کہ شکوہ صورت غیر سے

مجھے اک حیات دوبارہ دے اسی قدرت اپنی سے اے خدا
کہ خطاب فقرۂ کم لبثت کیا تھا جن نے عزیر سے

وہ جو ہے علی ولی وصی ہے محمد عربی اخی
سو تو عبد خاص کریم ہے اسے دشمنی ہے نصیر سے

یہی چال اپنی ہے انشاؔ اب کبھی تو درختوں سے خلطے ہیں
کبھی ہے صبا سے خطاب کچھ کبھی وحش سے کبھی طیر سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.