نہ دل میں صبر نہ اب دیدۂ پر آب میں خواب

نہ دل میں صبر نہ اب دیدۂ پر آب میں خواب
by نظیر اکبر آبادی

نہ دل میں صبر نہ اب دیدۂ پر آب میں خواب
شتاب آ کہ ہمیں آوے اس عذاب میں خواب

جہاں بھی خواب ہے اور ہم بھی خواب ہیں اے دل
عجب بہار کا دیکھا یہ ہم نے خواب میں خواب

ہماری چشم کا اے شہسوار توسن ناز
جو غور کی تو کیا ہے تری رکاب میں خواب

ہر اک مکاں میں گزر گاہ خواب ہے لیکن
اگر نہیں تو نہیں عشق کے جناب میں خواب

ہجوم اشک میں لگتی ہے چشم تر اس طور
کہ جیسے ماہی کو آتا ہے اپنے آب میں خواب

روا روی میں لگے آنکھ کس طرح سے نظیرؔ
مسافروں کو کہاں ایسے اضطراب میں خواب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse