نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے توبہ نہ دیکھوں گا

نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے توبہ نہ دیکھوں گا
by عزیز الحسن غوری

نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے توبہ نہ دیکھوں گا
تقاضا لاکھ تو کر اے دل شیدا نہ دیکھوں گا

کروں ناصح میں کیونکر ہائے یہ وعدہ نہ دیکھوں گا
نظر پڑ جائے گی خود ہی جو دانستہ نہ دیکھوں گا

نگاہ ناز کو تیری میں شرمندہ نہ دیکھوں گا
ہٹائے لیتا ہوں اپنی نظر اچھا نہ دیکھوں گا

وہ کہتے ہیں نہ سمجھوں گا تجھے مجذوبؔ میں عاشق
کہ جب تک کوچہ و بازار میں رسوا نہ دیکھوں گا

بلا سے میں اگر رو رو کے بینائی بھی کھو بیٹھوں
کروں گا کیا ان آنکھوں کو جو وہ جلوہ نہ دیکھوں گا

بلا سے میرے دل پر میری جاں کچھ ہی گزر جائے
میں تیری خاطر نازک کو آزردہ نہ دیکھوں گا

اٹھاؤں گا نہ زانو سے میں ہرگز اپنا سر ہمدم
ارے میں اپنی آنکھوں سے انہیں جاتا نہ دیکھوں گا

حسینوں سے وہی پھر حضرت دل دیدہ بازی ہے
ابھی تو کر رہے تھے آپ یہ دعویٰ نہ دیکھوں گا

ذرا اے ناصح فرزانہ چل کر سن تو دو باتیں
نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوبؔ کا دیوانہ دیکھوں گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse