نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں

نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
by شاہ نصیر
298215نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیںشاہ نصیر

نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
حدیث یار رکھتے ہیں یہی افسانہ رکھتے ہیں

چمن میں سرو قد گر جلوۂ مستانہ رکھتے ہیں
برنگ طوق قمری ہم خط پیمانہ رکھتے ہیں

خیال آنکھوں کا تیری جبکہ اے جانانہ رکھتے ہیں
تو جوں نرگس ہر اک انگشت بر پیمانہ رکھتے ہیں

نمایاں زلف کے حلقے میں کر ٹک خال عارض کو
کہ ہیں صیاد جتنے دام میں وہ دانہ رکھتے ہیں

بجز آئینہ معشوقوں کی کب ہو زلف پردازی
کہ عکس پنجۂ مژگاں سے دست شانہ رکھتے ہیں

بجائے حلقۂ کاکل ہیں خال روئے صید افگن
بہ چشم دام جائے مردمک یاں دانہ رکھتے ہیں

بسان چوب و نقارا ہیں خار و آبلہ پائی
بہ وادیٔ جنوں انگیز نوبت خانہ رکھتے ہیں

نہیں اشک مسلسل یہ گریباں گیر اے ساقی
گلے میں اپنے عاشق سبحۂ صد دانہ رکھتے ہیں

صدائے آشنائی مثل ہمدم ہو سو وہ جانے
کہ مثل بانسری انگشت بر ہر خانہ رکھتے ہیں

نہ الجھو اس قدر بے وجہ سلجھانے میں زلفوں کے
دل صد چاک تو ہم بھی برنگ شانہ رکھتے ہیں

دل اپنا کیوں نہ ہو بحر جہاں میں جوں گہر کالا
تلاش آب ہے ہم کو نہ فکر دانہ رکھتے ہیں

نہ کیوں کر بزم میں روشن ہو اپنی شب یہ دل سوزی
کہ الفت شمع رو سے ہم بھی جوں پروانہ رکھتے ہیں

بہار آئی ہے اب تو اے جنوں ہو سلسلہ جنباں
کہ ہم مدت سے قصد رفتن ویرانہ رکھتے ہیں

نگہ ٹک ابرو و چشم بتاں پر کیجیو زاہد
کہ یہ محراب مسجد کے تلے مے خانہ رکھتے ہیں

بٹھائیں سرو و شمشاد اپنے سر پر کیوں نہ قمری کو
ترے قد کے ہیں بندے وضع آزادانہ رکھتے ہیں

ٹھکانا کچھ نہ پوچھو ہم سے تم خانہ بدوشوں کا
جہاں جوں بوئے گل ٹھہرے وہیں کاشانہ رکھتے ہیں

ہمیں مت چھیڑ کر دیکھو رلاؤ اور جلاؤ تم
کہ طوفاں چشم میں سینے میں آتش خانہ رکھتے ہیں

کریں گے بیعت دست سبو پیر مغاں تجھ سے
کہ شوق شرب مے ہے مشرب رندانہ رکھتے ہیں

نصیرؔ اب ہم کو کیا ہے قصۂ کونین سے مطلب
کہ چشم پر فسون یار کا افسانہ رکھتے ہیں

نصیرؔ اس شوخ سے کہنا کہ پیش چشم حیرت میں
تصور روز و شب تیرا ہم اے جانانہ رکھتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.